الحمد للہ.
اگر کوئی روزے دار یہ سمجھے کہ اس کا روزہ کسی ممنوع کام میں ملوث ہونے کی بنا پر ٹوٹ گیا ہے، تاہم رمضان کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹا ہی نہیں تھا، تو ایسی صورت میں اس پر قضا نہیں ہے، اس کا یہ سمجھنا کہ اس کا روزہ ٹوٹ چکا ہے اس سے کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؛ کیونکہ اس نے ایسا کوئی کام ہی نہیں کیا جو روزے کے منافی ہو اور نہ ہی اس نے روزہ توڑنے کی نیت کی تھی، نیت کے معاملے میں واجب یہ ہے کہ اس نیت کے اثرات ساتھ ساتھ رہیں، اور اس شخص نے نیت کے اثرات کو باقی رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے بقیہ پورا دن روزے کے منافی امور سے بچتے ہوئے گزارا ہے۔
اور پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ جس شخص کی روزے سے متعلق نیت متردد ہو کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے یا نہیں، تو اس میں صحیح موقف یہ ہے کہ اس کا روزہ ٹھیک ہے، محض تردد کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، شرط یہ ہے کہ وہ روزے کی ابتدا صحیح وقت سے اور پختہ نیت سے کر چکا ہو نیز روزے کے دوران کوئی ایسا کام نہ کرے جو روزے کے منافی ہو؛ کیونکہ اصل حکم یہ ہے کہ روزے دار کا روزہ باقی ہے، لیکن روزہ ٹوٹنے کے تردد سے روزے پر کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا، اثر اسی وقت ہو گا جب یقینی طور پر روزہ توڑنے کی نیت کر لے۔
شیخ ابن عثیمین اور شیخ ابن جبرین رحمہما اللہ نے یہی فتوی دیا ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (194641) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر روزہ ٹوٹنے یا پورا ہونے والے کا یہ حکم ہے ، تو اس شخص کا روزہ تو بالاولی صحیح ہونا چاہیے جس نے روزہ توڑنے کی سرے سے نیت ہی نہیں کی، نہ ہی کوئی ایسا کام کیا ہے جو روزہ توڑنے کا باعث بن سکے، یہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے ماہ رمضان کے تقدس کے پیش نظر اپنا روزہ مکمل کر لیا ہے۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ :
یہ روزہ بالکل صحیح ہے، نیت کردہ فرض روزہ اس کا مکمل ہو گیا ہے، اب اس پر کچھ نہیں ہے۔
واللہ اعلم