الحمد للہ.
اول:
اس طرح کی مطلق اور مجمل عبارت کے باطل ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے، لوگ ہمیشہ سے دنیاوی خیر اللہ تعالی سے طلب کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ضرورتیں دینی ہوں یا دنیاوی سب کی سب لوگ اللہ تعالی سے مانگتے ہیں۔
دنیاوی خیر و بھلائی طلب کرنا یا دنیا کے لیے دوڑ دھوپ کرنا کہیں بھی شریعت میں منع نہیں ہے۔
اس حوالے سے ممانعت یا مذمت یہ ہے کہ: انسان دنیا کے علاوہ کچھ نہ سوچے، آخرت کے لیے کوئی کام نہ کرے، نہ تو اسے آخرت کا شوق ہو نہ ہی کوئی رغبت ہو، انسان صرف اور صرف دنیا داری کے لیے ہی دوڑ دھوپ کرے اور اسی میں مگن رہے، آخرت کو بھول جائے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ * وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
ترجمہ: کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں ہی عطا فرما دے۔ اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ [200] اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما، [201] یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کی مکمل کمائی ہے، اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے۔[البقرۃ: 200 - 202]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جس وقت زاویہ مقام پر تھے تو ان سے کہا گیا: آپ کے پاس بصرہ سے آپ کے بھائی آئے ہیں، اور آپ سے اپنے لیے دعا کروانا چاہتے ہیں، تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے دعا کی اور کہا: "یا اللہ! ہم سب کو مغفرت عطا فرما، اور ہم پر رحم فرما، اور ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ بصرہ کے لوگوں نے مزید دعا کی استدعا کی، تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی الفاظ دوبارہ دہرائے، اور پھر کہا: اگر تمہیں یہ سب کچھ مل جائے تو تمہیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کر دئی گئی ۔"
اس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "الأدب المفرد" (633) میں روایت کیا ہے اور البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ دنیاوی امور کے بارے میں دعا کرنا بالکل واضح لفظوں میں ثابت ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ایک دعا سکھائی کہ:
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ الْخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الشَّرِّ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا
ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے جلد یا دیر سے ملنے والی ہر قسم کی خیر طلب کرتی ہوں، چاہے مجھے اس کا علم ہے یا نہیں۔ اور میں تجھ سے جلد یا دیر سے ملنے والے ہر قسم کے شر سے پناہ مانگتی ہوں چاہے مجھے اس کا علم ہے یا نہیں۔ یا اللہ! میں تجھ سے وہ خیر طلب کرتی ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور نبی نے مانگی، اور میں تیری پناہ میں آتی ہوں ہر اس چیز سے جس سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ طلب کی۔ یا اللہ! میں تجھ سے جنت اور جنت کے قریب کرنے والے عمل اور قول کا مطالبہ کرتی ہوں، اور میں تجھ سے آگ اور آگ کے قریب کرنے والے قول و فعل سے پناہ مانگتی ہوں، اور میں تجھ سے دعا مانگتی ہوں کہ تو نے میرے بارے میں جتنے بھی فیصلے کیے ہوئے ہیں انہیں خیر کے فیصلے بنا دے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ: "میں ایک دن نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں گیا تو وہاں صرف میں، میری والدہ اور میری خالہ ام حرام تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے اور فرمایا: (کیا میں تمہیں نماز نہ پڑھاؤں؟) یہ کسی بھی فرض نماز کا وقت نہیں تھا۔ -سامعین میں سے ایک شخص نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھاتے ہوئے انس کو کس جانب کھڑا کیا تھا؟ تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی دائیں جانب- تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور ہم سب اہل خانہ کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا کی۔ اس پر میری والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کا یہ چھوٹا سا خادم ہے اس کے لیے بھی دعا کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے لیے ہر قسم کی خیر کی دعا فرمائی، اور پھر اپنی دعا میں کہا:(یا اللہ! اس کا مال زیادہ فرما دے، اس کی اولاد بھی زیادہ فرما دے، اور اس کے لیے برکتیں فرما دے) "
اس حدیث کو امام بخاری نے "الأدب المفرد" (88) میں روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
اس حوالے سے دو چیزیں قابل مذمت ہیں:
پہلی چیز: انسان کی ساری تگ و دو صرف اور صرف دنیا کے لیے ہو، جیسے کہ پہلے بھی اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے، آخرت کی سوچ بالکل بھی نہ ہو ساری دوڑ دھوپ صرف دنیا کے لیے ہو۔
انسان اپنی دعاؤں میں -جو کہ عظیم ترین عبادت اور قربِ الہی کا ذریعہ ہے- صرف دنیا ہی مانگے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس امت کو بلندی، فتح اور سلطنت کی خوش خبری دے دو۔ ان میں سے کوئی بھی آخرت کے لیے کیے جانے والے عمل کو دنیا کمانے کے لیے کرے تو اس کے لیے آخرت میں کچھ نہیں ہو گا۔) اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ (21223) اور دیگر نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (جس شخص کا مقصود حصولِ دنیا ہو، اللہ تعالی ا س کے کام بکھیر دیتا ہے اور اس کا فقر اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور اسے دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے لیے لکھی گئی تھی اور جس کی نیت آخرت کا حصول ہو، اللہ تعالی اس کے کام مرتب کر دیتا ہے اور اس کے دل میں استغنا پیدا فرما دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آتی ہے۔)
اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (4105)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا ہوا کرتی تھی کہ اللہ تعالی دنیا کو ان کی آخری چاہت نہ بنائے، نہ ہی دنیا کے لیے پریشان ہونے والا بنائے، جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ: (بہت کم ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی مجلس میں ہوں اور کھڑے ہونے سے پہلے ان کے لیے ان الفاظ میں دعا نہ کریں: اَللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلاَ تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لاَ يَرْحَمُنَا ترجمہ: یا اللہ! ہمیں اپنی ایسی خشیت عطا فرما جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے ۔تیری ایسی اطاعت عطا فرما جو ہمیں تیری جنت میں پہنچا دے، اور ایسا یقین عطا فرما جس سے ہمیں دنیا کی مصیبتیں معمولی لگنے لگیں۔ اور ہمیں اپنی سماعت ، بصارت اور جسمانی طاقت سے زندگی بھر لطف اندوز فرما، اور انہیں ہمارا وارث بنا، ہمیں ظلم کرنے والوں سے ہی بدلہ لینے والا بنا، ہم پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، ہمیں دینی طور پر مصیبت میں مت ڈال، اور نہ ہی دنیا ہمارا سب سے بڑا مقصد بنا ، نہ ہی ہمارے علم کو دنیا تک محدود فرما، اور ہم پر کسی ایسے حکمران کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کرے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3502)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
دوسری مذموم چیز: دنیا کی محبت کا انسان پر اتنا تسلط ہو جائے کہ اسے اس بات کا خیال ہی نہ رہے کہ اس نے حلال طریقے سے دنیا کمائی ہے یا حرام طریقے سے۔
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی بھی جان اس وقت تک موت نہیں پائے گی جب تک اپنی زندگی اور رزق پورا نہ کر لے، اس لیے حصولِ رزق کے لیے بہترین طریقہ اپناؤ، رزق کی تاخیر تمہیں قطعا نافرمانی کے ذریعے تلاش معاش پر مجبور نہ کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں موجود کوئی بھی چیز اس کی اطاعت گزاری سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔) اس حدیث کو ابو نعیم رحمہ اللہ "الحلية" (10/26)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تو معلوم ہوا کہ آخرت کو بھول کر صرف دنیا میں مگن رہنا، اور حلال و حرام کی تمیز کے بغیر ہی جہاں سے دنیا ملے کماتے جانا یہی وہ دو امور ہیں جن کی وجہ سے دنیاوی دعائیں کرنے یا دنیا کے لیے تگ و دو کی مذمت کی گئی ہے۔
چنانچہ ابو معاویہ بن اسود رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس کا مقصد صرف دنیا ہو تو کل قیامت کے دن اس کی پریشانی بہت طویل ہو گی۔"
اسی طرح مسلمہ بن عبد الملک رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" جو دنیا کے لیے کم پریشان ہو گا آخرت کے دن بھی وہی سب سے کم پریشان ہو گا "
یہ دونوں اثار ابن ابی الدنیا نے "ذم الدنيا" (283، 284) میں بیان کیے ہیں۔
خلاصہ:
سوال میں مذکور الفاظ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی صحیح ثابت نہیں ہے کہ دنیاوی خیر مانگنا منع ہے، نہ ہی یہ بات ثابت ہے کہ دنیاوی خیر مانگنے سے پریشانیاں آتی ہیں۔
البتہ یہ ہے کہ دنیا میں مشغول ہو کر آخرت بھول جانے سے خبردار کیا گیا ہے، یا حرام طریقوں سے دنیا حاصل کرنا منع ہے۔
واللہ اعلم