الحمد للہ.
شرعي قرضہ حسنہ جس پر سود مرتب نہ ہوتا ہو لينا جائز ہے، ليكن اس كے ساتھ غير شرعى شرائط مربوط كرنا جائز نہيں، اور سوال ميں بھى اسى قسم كا ذكر ہے، اور كمپنى كى جانب سے قرض حاصل كرنے والے پر زندگى كى انشورنس كى شرط لگانا جواز كو ختم كرديتى ہے، اس ميں كوئى شك نہيں كہ زندگى كى انشورنس كروانى - بلكہ ہر قسم كى انشورنس - حرام ہے، اور يہ جوا كا معاہدہ ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
زندگى اور ممتلكات كى انشورنس شرعا حرام اور ناجائز ہے، كيونكہ اس ميں دھوكہ و فراڈ اور سود پايا جاتا ہے، اور اللہ تعالى نے امت پر رحمت اور انہيں نقصان دہ اشياء سے بچاؤ كرتے ہوئے ہر قسم كے سودى معاملات اور جن معاملات ميں دھوكہ و فراڈ پايا جاتا ہے حرام قرار ديے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
اور اللہ تعالى نے تجارت حلال كي اور سود كو حرام كيا ہے
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ انہوں نے دھوكہ كى تجارت سے منع فرمايا.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 5 ).
اس بنا پر ايسے رہائشى قرضوں كے پروگرام ميں حصہ لينا جائز نہيں جس ميں كمپنى زندگى كى انشورنس كرانے كى شرط ركھے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق ايسى جگہ سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرے اللہ تعالى اسے كافى ہو گا، بلا شبہ اللہ تعالى اپنا كام پورا كركے ہى رہے گا، يقينا اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہےالطلاق ( 2 - 3 )
اور ايك مقام پر ارشاد فرمايا:
اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كا معاملہ آسان فرما ديتا ہے الطلاق ( 4 ).
واللہ اعلم .