الحمد للہ.
الحمدللہصرف اپنے آپ سے بات کرنے یا سوچنے یا پھرعزم کرنے کی بنا پر طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ زبان سے الفاظ کی ادائيگي کی جاۓ توطلاق ہوگی ۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ اللہ تعالی نے میری امت کے وسوسے اورجوکچھ ان کے دلوں میں ہے معاف کردیا ہے جب تک وہ اس پر عمل نہ کریں اوریا اسے زبان پر نہ لائيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6664 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 127 ) ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے :
( اس کا مجمل یہ ہے کہ طلاق الفاظ کے بغیر واقع نہیں ہوتی ، اگر اس نے اپنے دل میں نیت کرلی لیکن الفاظ ادا نہ کیے توعام اہل علم کے ہاں یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ، ان علماء میں عطاء ، جابر بن زيد ، سعید بن جبیر ، یحیی بن ابی کثیر ، اور امام شافعی ، اسحاق ، رحمہم اللہ تعالی شامل ہیں ، اورقاسم ، سالم ، اورحسن ،اورامام شعبی رحمہم اللہ تعالی سے بھی مروی ہے ) دیکھیں المغنی ابن قدامہ ( 7 / 294 ) ۔
اورآپ کا یہ کہنا کہ ( یہ آواز کےساتھ نہیں تھا اورمیں خود بھی نہیں سن سکا ) اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے یہ کلام آہستہ آواز میں کی ہے ، اگرمعاملہ اسی طرح ہے توجو کچھ آپ سے صادر ہوا وہ طلاق معلق شمار ہوگی جوکہ اس شرط پر معلق ہے کہ اگربیوی نے کپڑے دوھوۓ تواسے طلاق ہوجاۓ گی ۔
اورآپ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ نے اس سے طلاق مراد نہیں چاہی بلکہ صرف ڈراوا اورخوف مراد لیا ہے ، تو اس بنا پر اس طلاق کا حکم قسم کا حکم ہوگا ، لھذا اگر اس نے کپڑے دھوۓ توآپ پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے اورطلاق واقع نہيں ہوگی ، جیسا کہ شیخ ابن باز اورابن عثیمین رحمہما اللہ تعالی نے فتوی دیا ہے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 280 - 285 ) ۔
اورقسم کا کفارہ مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی میں مذکور ہے :
اللہ تعالی تمہاری لغو قسموں میں تمہارا مؤاخذہ نہیں کرتا لیکن وہ تمہارا مؤاخذہ پختہ قسموں میں کرتا ہے جس کا کفارہ دس مسکینوں کودرمیانی قسم کا کھانا کھلانا ہے جوتم اپنے گھروالوں کوکھلاتے ہو ، یا پھر ان دس مسکینوں کے کپڑے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ، جو یہ چيزیں نہ پاۓ وہ تین دن کے روزے رکھے ، جب تم قسم اٹھاؤ تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے المائدۃ ( 89 ) ۔
آپ سوال نمبر ( 9985 ) کا بھی مراجعہ کریں ۔
اوریہ سب کچھ اس بنا پر ہے کہ آپ نے الفاظ کی ادائيگي بھی کی ہے صرف اپنے آپ سے دل میں ہی بات تک محدود نہیں ، اس میں آپ قسم کا کفارہ دینے میں زيادہ احتیاط اورافضل واولی ہے ۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اگر آپ نے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کیۓ اوراپنے ہونٹوں کوحرکت نہیں دی تو آپ کے ذمہ کچھ نہیں ۔
لیکن اگر آپ نے الفاظ کی ادائيگي کی ہے چاہے آہستہ آواز سے ہی تواس کا حکم قسم جیسا ہے کیونکہ آپ نے اسے روکنے کا ارادہ کیا تھا نہ کہ طلاق کا ۔
عورت کو اس کا علم ہویا نہ ہواس سے حکم میں کوئي تبدیلی نہیں آتی
مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سوچ وبچار اورعزم اورالفاظ میں طلاق کے معاملہ سے اجتناب کرے اس لیے کہ اس میں مسلمان گھرانے کوتباھی کے اسباب درپیش ہونگے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات درست فرماۓ ، آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم.