الحمد للہ.
اول:
شرک کی تعریف:
انسان کے لیے انتہائی ضروری ، واجب اور فرض ہے کہ مسلمان کو علم ہو کہ شرک کسے کہتے ہیں، شرک کے خطرات اور اقسام کا بھی علم ہونا چاہیے، تا کہ مسلمان کا عقیدہ توحید کامل ہو، اس کا اسلام مکمل طور پر سلامت ہو اور ایمان صحیح ہو، اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں اور ہم اللہ تعالی سے رہنمائی اور توفیق طلب کرتے ہیں۔
لغوی طور پر شرک یہ ہے کہ: کسی کو شریک بنانا، یعنی کسی کو کسی کا شریک بنا دینا، عربی جملے میں کہا جاتا ہے: { أشرك بينهما} یہ تب کہتے ہیں جب کسی چیز میں دو افراد کو شریک بنا دیا جائے۔ یا پھر کہتے ہیں: { أشرك في أمره غيره} یہ اس وقت کہتے ہیں جب اپنے معاملے میں کسی دوسرے کو شامل کر کے دو میں تقسیم کر دیا جائے۔
جبکہ شرعاً شرک یہ ہے کہ: اللہ تعالی کی ربوبیت، الوہیت اور اسما و صفات سے تعلق رکھنے والے خالصتاً اللہ کے حق کو غیر اللہ کے لیے بجا لانا شرک اکبر کہلاتا ہے۔
عربی زبان میں شریک کو { نِدٌّ} بھی کہتے ہیں، جس کا اردو ترجمہ نظیر اور مثال ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے انداد یعنی اللہ تعالی کے شریک بنانے سے منع فرمایا، بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اللہ تعالی کا شریک بناتے ہیں۔چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَاداً وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اللہ کے لیے شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔ [البقرۃ: 22]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَاداً لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ
ترجمہ: اور انہوں نے اللہ کے نظیر بنا لیے ہیں تاکہ وہ اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں۔ آپ کہہ دیں: تم مزے اڑا لو؛ یقیناً تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔[ابراہیم: 30]
اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک بناتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4497) اور مسلم : (92) نے روایت کیا ہے۔
شرک کی اقسام:
کتاب و سنت کی نصوص میں واضح ہے کہ شرک اور اللہ تعالی کا کسی کو نظیر سمجھنا بسا اوقات انسان کو اسلام سے خارج کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اور کبھی نہیں بھی بنتا، چنانچہ اہل علم نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، شرک اکبر اور شرک اصغر، ذیل میں ہر قسم سے متعلق مختصر تعارف آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
اول: شرک اکبر
اللہ تعالی کی ربوبیت، الوہیت اور اسما و صفات سے تعلق رکھنے والے خالصتاً اللہ کے حق کو غیر اللہ کے لیے بجا لانا شرک اکبر کہلاتا ہے۔ شرک کی یہ قسم کبھی تو واضح ہوتی ہے مثلاً: تھان پرست، بت پرست ، قبر پرست، مردہ پرست اور غیر مرئی چیزوں کی عبادت کرنے والے لوگوں کا شرک۔
شرک اکبر کبھی خفیہ بھی ہوتا ہے، مثلاً: اللہ کے علاوہ مختلف معبودانِ باطلہ پر توکل کرنے والوں کا شرک، یا منافقین کا کفر و شرک۔ منافقین کا شرک بھی شرک اکبر ہی ہوتا ہے جس سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور منافق ہمیشہ جہنم میں رہے گا، لیکن شرک کی یہ قسم خفیہ ہوتی ہے ؛ کیونکہ منافق اپنے آپ کو ظاہر تو مسلمان کرتے ہیں ، لیکن دل میں کفر لیے ہوتے ہیں، لہذا منافق لوگ بھی اندرونی طور پر مشرک ہوں گے، ظاہری طور پر نہیں۔
شرکیہ عقائد
شرکیہ عقائد میں درج ذیل امور شامل ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ: اللہ تعالی کے ساتھ اس کائنات میں پیدا کرنے والا بھی ہے، زندہ کرنے والا بھی ہے، مارنے والا بھی ہے، بادشاہ بھی ہے، اور اس کائنات میں امور چلانے والا بھی ہے۔
یا یہ عقیدہ رکھنا کہ جیسے اللہ تعالی کی مطلق اطاعت کی جاتی ہے اسی طرح غیر اللہ کی بھی کی جا سکتی ہے، چنانچہ غیر اللہ کی جانب سے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام کہے چاہے اس کی یہ تحلیل و تحریم رسولوں کے لائے ہوئے دین سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔
یا پھر اللہ تعالی سے محبت اور اللہ تعالی کی تعظیم جیسی تعظیم غیر اللہ کی کی جائے تو یہ بھی شرک ہے اللہ تعالی اسے بھی معاف نہیں فرمائے گا، یہی وہ شرک ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ترجمہ: لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر اللہ کے شریک بناتے ہیں اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے۔[البقرۃ: 165]
یا یہ عقیدہ رکھنا کہ جیسے اللہ تعالی کو علم غیب ہے اسی طرح کوئی اور بھی غیب جانتا ہے، اس طرح کے نظریات رافضی، غالی صوفی اور باطنی جیسے منحرف فرقوں میں عموماً پائے جاتے ہیں؛ کیونکہ رافضیوں کا یہ دعوی ہے کہ ان کے ائمہ علم غیب جانتے ہیں، اسی طرح باطنی اور غالی قسم کے صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ان کے اولیاء وغیرہ علم غیب جانتے ہیں۔ اسی طرح یہ سمجھنا کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور ایسی ذات ہے جو اللہ تعالی جیسی رحمت فرما سکتی ہے، مثلاً: رحم کرتے ہوئے گناہ معاف کر دے، یا بندوں کی خطائیں مٹا دے۔
شرکیہ اقوال
بسا اوقات شرک اقوال میں بھی ہوتا ہے، مثلاً: کوئی شخص غیر اللہ سے دعا کرے، یا اسے اپنا غوث سمجھے یا مدد مانگے ، یا پھر غیر اللہ کی پناہ ایسے کام میں حاصل کرے جس سے صرف اللہ تعالی ہی پناہ دے سکتا ہو۔ اب اس میں کوئی فرق نہیں آتا کہ غیر اللہ سے مراد کوئی نبی ہو یا ولی، فرشتہ ہو یا جن، یا کوئی بھی مخلوق ہو؛ کیونکہ یہ شرک اکبر ہے اور دین اسلام سے خارج کر دینے والا عمل ہے۔
ایسے ہی کوئی شخص دین کا مذاق اڑائے، یا اللہ تعالی کو مخلوق کے مشابہ قرار دے، یا اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو بھی خالق، رازق یا کائنات کے کام چلانے والا سمجھے تو یہ سب امور شرک اکبر ہیں، اور شرک اکبر ایسا گناہ ہے جو معاف نہیں ہو گا۔
شرکیہ افعال
شرک اکبر بسا اوقات افعال میں بھی پایا جاتا ہے:
مثلاً: اگر کوئی شخص غیر اللہ کے جانور ذبح کرے، یا غیر اللہ کے لیے نماز پڑھے، یا غیر اللہ کو سجدہ کرے، یا ایسے قوانین وضع کرے تو اللہ تعالی کے قانون کے مد مقابل ہوں اور لوگوں پر انہیں لاگو بھی کرے، لوگوں کو انہی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کافروں کی پشت پناہی کرے، اور مومنوں کے خلاف کافروں کی مدد کرے، یا کوئی بھی ایسا کام کرے جو کہ ایمان کی بنیاد کے منافی ہو تو ایسا شخص اسلام سے خارج ہو گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسے افعال سے محفوظ رکھے۔
دوم: شرک اصغر
شرک اکبر کا ذریعہ بننے والا کوئی بھی کام شرک اصغر کہلاتا ہے، یا پھر شرعی نصوص میں اسے شرک کہا گیا ہے لیکن وہ در حقیقت شرک اکبر تک نہیں پہنچتا۔
شرک اصغر عام طور پر دو طرح کا ہوتا ہے:
- کچھ ایسے اسباب کو کسی چیز کا سبب سمجھ لینا جسے اللہ تعالی نے اس چیز کا سبب نہیں بنایا، مثلاً: پنجہ لٹکانا، منکے لٹکانا وغیرہ اور یہ سمجھنا کہ اس سے تحفظ ملتا ہے اور نظر بد سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے انہیں شرعاً یا قدراً کسی بھی طرح سے ان نتائج کا ذریعہ نہیں بنایا۔
- کسی کی اتنی تعظیم کرنا جو اسے ربوبیت کے مقام تک نہ پہنچائے، مثلاً: غیر اللہ کے نام کی قسم اٹھانا، یا یہ کہنا کہ: اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے تو میرا نقصان ہو جانا تھا۔ یا اسی طرح کی کوئی اور بات کرنا وغیرہ
شرک اکبر اور شرک اصغر کے درمیان امتیاز کرنے کے ضوابط
علمائے کرام نے کچھ ایسے قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں جن کی روشنی میں شرعی نصوص میں آنے والے شرک اصغر یا شرک اکبر کے تذکرے میں تفریق کی جا سکتی ہے، یہ قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں:
1-رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود صراحت کریں کہ یہ کام شرک اصغر ہے، جیسے کہ مسند احمد: (27742) میں ہے سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ شرک اصغر کا خدشہ ہے۔) سامعین نے کہا: یا رسول اللہ! یہ شرک اصغر کیا چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ریا کاری۔ چنانچہ جس دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو اللہ تبار ک و تعالی ان سے فرمائے گا: تم انہی لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے، اور دیکھو کیا تمہیں ان سے کوئی بدلہ ملتا ہے؟!) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "السلسلة الصحيحة" (951) میں صحیح قرار دیا ہے۔
2-کتاب و سنت کی نصوص میں لفظ "شرک" نکرہ آئے، تو عام طور پر اس سے مراد شرک اصغر لیا جاتا ہے، اور اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: إن الرقى والتمائم والتِّوَلَة شرك تو یہاں پر شرک کا لفظ نکرہ آیا ہے اس لیے یہاں شرک سے مراد شرک اصغر ہے۔ اس حدیث کو ابو داود: (3883)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (331) میں صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث میں مذکور { التمائم} سے مراد ایسے منکے وغیرہ ہیں جو بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے پہنائے جاتے تھے۔
اسی طرح { التِّوَلَة} سے مراد ایسی چیز ہے جس کے بارے میں لوگوں کا گمان تھا کہ اس طرح بیوی خاوند سے محبت کرنے لگتی ہے اور خاوند بیوی سے محبت کرنے لگتا ہے۔
3-شرعی نصوص سے صحابہ کرام یہ سمجھیں کہ یہاں شرک سے مراد شرک اصغر ہے، شرک اکبر مراد نہیں ہے۔ یہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فہمِ صحابہ معتبر ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام اللہ تعالی کے دین کو سب سے زیادہ جانتے تھے، اور انہیں صاحبِ شریعت کے مقاصد کا بھی دیگر تمام لوگوں سے زیادہ علم تھا، چنانچہ اس کی مثال سنن ابو داود: (3910) میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: الطِّيَرَةُ شِرْكٌ الطِّيَرَةُ شِرْكٌ ثَلاثًا وَمَا مِنَّا إِلا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّل " یعنی: بد فالی لینا شرک ہے، بد فالی لینا شرک ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار یہ بات فرمائی ۔ پھر اس کے بعد -کبار محدثین کی صراحت کے مطابق-سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اپنا کلام ہے کہ: ہم میں سے ہر شخص کے ذہن میں بد شگونی جیسی چیزیں آتی ہیں لیکن اگر اللہ تعالی پر توکل کریں تو اللہ تعالی انہیں ختم فرما دیتا ہے۔ تو اس فہم سے معلوم ہوا کہ یہاں شرک سے مراد شرک اصغر ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے افراد کے بارے میں کہیں کہ وہ شرک اکبر جیسے گناہ میں ملوث ہو جاتے تھے۔ پھر یہ بھی ہے کہ شرک اکبر صرف اللہ تعالی پر توکل کرنے سے ختم نہیں ہوتا بلکہ اس سے توبہ کرنا لازمی ہے۔
4-رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود لفظ شرک یا کفر کی تفسیر بیان کر دیں کہ یہاں شرک اصغر مراد ہے اکبر مراد نہیں ہے، جیسے کہ امام بخاری: (1038) اور مسلم: (71) زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: (معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ )لوگ بولے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: (پروردگار فرماتا ہے کہ آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہیں اور دوسرے کافر۔ جنہوں نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے بارش ہوئی وہ تو مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے اور جنہوں نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے بارش ہوئی انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے۔)
تو یہاں پر کفر سے مراد کون سا کفر ہے؟ اس کی تفصیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: "میں نے اپنے بندوں پر کسی بھی قسم کی نعمت کی ہے تو ان میں سے کچھ اس نعمت کے منکر ہو گئے ہیں اور وہ کہنے لگے ہیں کہ تاروں کی جگہ دیگر تاروں نے لی تو بارش ہو گئ") تو یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرما دیا کہ اگر کوئی تاروں کو بارش ہونے کا سبب بنا رہا ہے حالانکہ اللہ تعالی کی طرف سے تارے بارش ہونے کا سبب نہیں ہیں، تو یہ اللہ تعالی کی نعمت کی نا شکری اور کفران نعمت ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ کفرانِ نعمت کفر اصغر ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ تارے ہی بذات خود بارش برساتے ہیں، تو یہ شرک اکبر ہو گا۔
شرک اصغر کی اقسام:
شرک اصغر بسا اوقات بالکل واضح ہوتا ہے، مثلاً: تعویذ گنڈے وغیرہ پہننا، دھاگا باندھنا، مخصوص نظریات کے ساتھ انگوٹھی پہننا وغیرہ
اور بسا اوقات شرک اصغر خفیہ بھی ہوتا ہے، جیسے کہ ریاکاری ۔
اسی طرح شرک اصغر کا تعلق نظریات سے بھی ہو سکتا ہے :
جیسے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا کہ یہ چیز حاجت روائی یا مشکل کشائی کا سبب ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے اسے قدری یا شرعی کسی بھی اعتبار سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کا سبب نہیں بنایا ہوتا۔ یا پھر کسی بھی چیز میں برکت کا نظریہ رکھنا حالانکہ اللہ تعالی نے اس میں برکت نہیں رکھی۔
اور ایسے ہی کچھ اقوال بھی شرک اصغر ہو سکتے ہیں:
مثلاً: یہ کہنا کہ ہمیں فلاں فلاں برج کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی ہے، یہ بات شرک اصغر تب ہو گی جب برجوں کے بارے میں بذات خود بارش نازل کرنے کا نظریہ نہ ہو۔ [اگر بذات خود بارش نازل کرنے کا نظریہ رکھا جائے تو یہ شرک اکبر ہو گا۔ جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مترجم] اسی طرح غیر اللہ کی قسم اس طرح اٹھانا کہ اس مخلوق کو اللہ تعالی کے برابر نہ سمجھا جائے۔ [اگر اللہ تعالی کے برابر سمجھا جائے گا تو یہ شرک اکبر ہے۔ مترجم] یا کسی جملے میں ذات باری تعالی اور مخلوق کو برابر درجے میں بیان کیا جائے، مثلاً کسی کو کہنا کہ: جو اللہ اور تم چاہو۔ یا ایسی ہی کوئی بات کرنا۔
ایسے ہی کچھ افعال بھی شرک اصغر ہو سکتے ہیں، مثلاً: کوئی شخص تعویذ یا کڑا یا دھاگا وغیرہ مشکل کشائی یا مشکلات سے تحفظ کے لیے پہنے؛ کیونکہ کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کو کسی خاص نتیجے کا سبب بنائے حالانکہ اللہ تعالی کی طرف سے وہ چیز شرعاً یا قدراً سبب نہیں ہے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔
ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی چیز سے تبرک لینے کے لیے اسے ہاتھ لگائے ، حالانکہ اللہ تعالی نے اس میں برکت نہیں رکھی ، جیسے کہ مسجد کے دروازوں کو چومنا، چوکھٹ کو چھونا، مسجد کی مٹی سے شفا حاصل کرنا وغیرہ۔
یہ شرک اکبر اور اصغر کی تقسیم کے حوالے سے کچھ وضاحت ہے، جبکہ کامل تفصیلات مختصر سے جواب میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
اہم نصیحتیں:
مسلمان پر شرک اصغر ہو یا اکبر دونوں سے خبردار رہنا لازم ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نافرمانی شرک ہے ؛یہ اللہ تعالی کے لیے مختص حق کے خلاف جارحیت ہوتا ہے، اور اللہ تعالی کے لیے مختص حق اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے۔
اسی لیے مشرکین کو اللہ تعالی نے دائمی طور پر جہنمی قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلا دیا کہ اللہ تعالی انہیں کبھی بھی معاف نہیں فرمائے گا، اللہ تعالی نے ان پر جنت بھی حرام کی ہوئی ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْماً عَظِيماً ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اس کے علاوہ جو چاہے گا جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ جو بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرے تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا۔[النساء: 48]
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ:
إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
ترجمہ: یقیناً جس شخص نے بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا تو اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہو گا۔[المائدۃ: 72]
چنانچہ ہر عقل و خرد اور دیندار شخص پر لازم ہے کہ اپنے بارے میں شرک کے خدشات رکھے اور شرک سے بچنے کے لیے ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا مانگتا رہے کہ اللہ تعالی اسے شرک جیسے گناہ سے محفوظ رکھے؛ جیسے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی دعا فرمائی:
وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الأَصْنَامَ ترجمہ: مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے محفوظ فرما۔ [ابراہیم: 35] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے بعد سلف صالحین میں سے کسی نے کیا خوب کہا کہ: اگر ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بارے میں شرک کا خدشہ تھا تو ان کے علاوہ کسی اور کو شرک سے محفوظ کیسے سمجھ سکتے ہیں!!
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بعد کوئی بھی اپنا صدق دل سے خیال رکھنے والا شخص شرک میں ملوث ہونے سے ضرور خوف زدہ رہے گا، اللہ تعالی سے بچاؤ اور تحفظ حاصل کرنے کی شدید رغبت رکھے گا، اور صحابہ کرام کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سکھلائی ہوئی دعا پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے شرک سے نجات ضرور مانگے گا، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (تمہارے اندر شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی انداز میں سرائیت کر سکتا ہے، میں تمہیں ایک ایسی چیز بتلاتا ہوں جب تم اسے عمل میں لے آؤ گے تو تم شرک سے چاہے اصغر ہو یا اکبر دور کر دئیے جاؤ گے، تم یہ دعا پڑھا کرو: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا أَعْلَمُ ترجمہ: یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں جانتے بوجھتے ہوئے شرک کر بیٹھوں، اور جس شرکیہ عمل کا مجھے علم نہیں ہے [اور میں اس کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں ] اس کی بخشش چاہتا ہوں۔) اس حدیث کو علامہ البانی نے "صحيح الجامع" (3731) میں صحیح قرار دیا ہے۔
پہلے جو کچھ بیان ہوا ہے یہ شرک اکبر اور شرک اصغر کے مابین ماہیت کے اختلاف کا تذکر ہ اور ہر قسم کی تعریف کے ساتھ اس کی انواع بیان کی گئی ہیں۔
شرک اکبر اور شرک اصغر کے حکم میں فرق
3- شرک اکبر اور شرک اصغر کے حکم میں فرق یہ ہے کہ شرک اکبر کی وجہ سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس لیے شرک اکبر کے مرتکب افراد پر اسلام سے خارج ہونے اور ارتداد کا حکم لگا یا جائے تو وہ کافر اور مرتد ہو گا۔
جبکہ شرک اصغر کا مرتکب شخص اسلام سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ وہ مسلمان ہی رہے گا ، البتہ شرک اصغر کا مرتکب شخص انتہائی خطرناک صورت حال میں ہوتا ہے۔ کیونکہ شرک اصغر بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے، حتی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "مجھے اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا لینا غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے سے زیادہ محبوب ہے" یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے شرک اصغر یعنی غیر اللہ کی سچی قسم کو اللہ تعالی کی جھوٹی قسم سے زیادہ قبیح قرار دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ ترین گناہ ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھے تا آں کہ ہم اللہ تعالی سے ایمان کی حالت میں ملیں، اور اس بات سے ہم اللہ تعالی کی عزت کی پناہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری رہنمائی نہ فرمائے؛ کیونکہ وہی زندہ ذات ہے جسے کبھی موت نہیں آئے گی جبکہ جن و انس سب مرنے والے ہیں۔
واللہ اعلم