الحمد للہ.
داڑھى كو سرخ يا زرد خضاب لگانا سنت ہے، اور صحيح يہى ہے كہ سياہ خضاب لگانا حرام ہے، اور ايك قول مكروہ بھى ہے، اس ميں مرد اور عورت سب برابر ہيں، صرف مجاہد يعنى جہاد كرنے والا مرد اس سے خارج ہے.
الماوردى كہتے ہيں:
" مجاہد فى سبيل اللہ كے حق ميں سياہ خضاب لگانا حرام نہيں "
صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے والد ابو قحافہ كى داڑھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفيد ديكھى تو فرمانے لگے:
" اس كو تبديل كر دو، اور سياہ سے اجتناب كرو " امام نووى كى كلام ختم ہوئى.
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اپنى داڑھى زرد كرتے ہوئے ديكھا "
اور ايك روايت يہ الفاظ زيادہ ہيں كہ:
" ميں بھى ايسا كرنا پسند كرتا ہوں "
اور امام احمد اور ابن ماجہ نے وہب رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بال مبارك نكالے تو وہ مہندى اور كتم سے خضاب شدہ تھے "
اور كتم تاء پر فتح كے ساتھ، ايك پودا ہے جو مہندى ميں ملا كر خضاب لگايا جاتا ہے، تو اس كا رنگ باقى رہتا ہے، القاموس ميں ايسے ہى ہے، اور الكتم ممنوع الصرف نہيں ہے، قسطلانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ سرخى مائل سياہ كرتا ہے.
جو لوگ حالت امن ميں صرف خالص سياہ خضاب استعمال كرتے ہيں ان كےليے شرعا ايسا كرنا جائز نہيں، اس سے شادى كا پيغام بھيجا جانےوالى عورت اور اس كے گھر والوں كو دھوكہ و فراڈ ميں مبتلا كرنا ہے، جب منگيتر سياہ خضاب لگائے گا تو وہ انہيں يہ باور كرا رہا ہے كہ وہ قوى اور نوجوان ہے، حالانكہ وہ كمزور اور بوڑھا تھا.