اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دوست سے لی ہوئی رقم جو کہ جوے کے اکاؤنٹس سے حاصل ہوئی تھی کیا اسے واپس کرے؟

سوال

مجھے فیس بک کے ذریعے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ وہ میرے لیے جوا کھلانے والی نئی کمپنی میں مینیجر کا اکاؤنٹ بنا کر دے گا، تو میں نے کمزور ایمانی حالت کی وجہ سے اس کی بات مان لی اور ویسے بھی مجھے اس وقت پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس اکاؤنٹ میں میرا یہ کام تھا کہ میں جوا کھیلنے والوں کے لیے اکاؤنٹ بنا کر دیتا تھا اور اسی سے کماتا بھی تھا، یعنی میرے پاس کسٹمر آ کر کہتا کہ وہ ہمارے پاس جوا کھیلنا چاہتا ہے تو میں اس کا اکاؤنٹ بنا کر اس کے اکاؤنٹ میں بیلنس بھی ڈال دیتا تھا، اور قیمت خرید و فروخت میں پائے جانے والا فرق میرا نفع ہوتا تھا، میں یہ بیلنس اپنے اسی دوست سے خریدتا تھا جس نے مجھے اکاؤنٹ بنا کر دیا تھا، وہ مجھے جتنا بھی بیلنس ارسال کرتا میں اسے فروخت کر کے اپنا حصہ رکھ لیتا اور بقیہ ساری رقم اسے ٹرانسفر کر دیتا تھا، میرا اور اس کا تعلق صرف انٹرنیٹ پر تھا، میری اس دوست سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ خیر مجھے ایک بار کچھ رقم کی ضرورت محسوس ہوئی تو میرے پاس اسی دوست کی رقم تھی تو میں نے اس سے پوچھے بغیر اسے استعمال کر لیا کہ مجھے امید تھی کہ میں جلد ہی اس کی رقم واپس کر دوں گا؛ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اس بنا پر ہمارے اندر اختلاف پیدا ہو گیا، تاہم میں نے اس سے صدق دل سے وعدہ کیا کہ میں اس کی رقم اسے لوٹا دوں گا، لیکن اس واقعے کے کچھ عرصے بعد اللہ تعالی نے مجھے توفیق دی کہ میں نے جوے کے اس کام سے توبہ کر لی، تو میں اس کام سے دور ہو گیا الحمد للہ، تو اب سوال یہ ہے کہ جو رقم میں اس وقت جمع کر رہا ہوں کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کو واپس لوٹاؤں؟

الحمد للہ.

اول:

جوا بازوں کے لیے اکاؤنٹ بنا کر دینا جائز نہیں ہے۔

جوا بازوں کے لیے اکاؤنٹ بنا کر دینا جائز نہیں ہے ؛کیونکہ اس طرح سے گناہ اور نافرمانی کے کام میں تعاون ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ 
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو؛ اللہ تعالی سے ڈرتے رہو؛ یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔[المائدہ:2]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو کسی ہدایت کی دعوت دیتا ہے تو دعوت دینے والے کے لیے اتنا ہی اجر ہوتا ہے جتنا اس کی ہدایت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور اس وجہ سے کسی کا اجر کم بھی نہیں ہو گا۔ جو کسی برائی کی دعوت دیتا ہے تو دعوت دینے والے کے لیے اتنا ہی گناہ ہوتا ہے جتنا اس کی دعوت پر برائی کرنے والوں کو ہو گا، اور اس وجہ سے کسی کا گناہ کم بھی نہیں ہو گا۔) مسلم: (4831)

لہذا اس حرام کام کی وجہ سے پیدا ہونے والا سرمایہ اور منافع بھی حرام ہے؛ کیونکہ یہ حرام کام کے عوض میں ہے۔

دوم:

حرام کام کے لیے کسی کو اجرت پر رکھ لیا اور خود اس حرام کام سے تائب ہو گیا تو وہ کیا کرے؟

ہم پہلے سوال نمبر: (303583 ) میں ذکر کر آئے ہیں کہ کسی نے حرام کام کے لیے کسی کو اجرت پر رکھ لیا اور خود اس حرام کام سے تائب ہو گیا تو اپنے مزدور کو اجرت نہیں دے گا؛ بلکہ اس اجرت کی رقم کو صدقہ کر دے گا؛ اسی طرح اگر کوئی شخص حرام چیز مثلاً شراب خریدے تو وہ فروخت کنندہ کو شراب کی قیمت نہیں دے گا، بلکہ اسے صدقہ کر دے گا؛ کیونکہ یہ حرام چیز یا حرام خدمت کا معاوضہ ہے۔

ایسے شخص کا حکم جو محرم لکسبہ مال ہڑپ کر جائے یا اسے بطور قرض وصول کر لے۔

جو شخص محرم لکسبہ [ایسا مال جو ذاتی طور پر تو حرام نہ ہو لیکن اسے کمانے کا طریقہ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے حرام ہو گیا ہو۔ مترجم] مال قرض میں لے لے، یا اسے ہڑپ کر جائے تو بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ اس مال کو واپس کرنا ضروری ہے، جبکہ غلط طریقے سے کمانے کا گناہ اسے کمانے والے پر ہی ہو گا۔

چنانچہ آپ نے اپنے ساتھی کی رقم اس کی اجازت کے بغیر استعمال کی تو یہ ہڑپ کرنے کے زمرے میں آئے گا، اس لیے آپ پر لازمی ہے کہ اسے اس کی رقم واپس کریں اور ساتھ میں حرام کام ترک کرنے کی نصیحت بھی کریں۔

تو کیا آپ کے ساتھی پر اس رقم سے جان چھڑانا لازمی ہے؟ اس میں کچھ تفصیل ہے:

  1. جو رقم اس نے حرمت کا علم ہونے سے پہلے وصول کی تھی تو اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
  2. اور جو رقم اس نے حرمت کا علم ہونے کے بعد حاصل کی ہے تو اس رقم سے جان چھڑانا لازمی ہے کہ وہ رقم فقرا، مساکین اور دیگر رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے، ہاں اگر وہ خود اس رقم کا محتاج ہے تو اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے نکال لے بقیہ مذکورہ بالا طریقے سے خرچ کر دے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی زانیہ اور شراب نوش توبہ کر لیتا ہے ، تو اگر یہ غریب ہیں تو ان کے غلط طریقے سے کمائے ہوئے مال میں سے اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کر سکتے ہیں، چنانچہ اگر تجارت یا کسی فن میں مہارت رکھتے ہیں مثلاً: انہیں کپڑا بننا آتا ہے تو انہیں صرف اتنا ہی دیا جائے گا جو ان کا رأس المال بن جائے۔ لیکن اگر اس میں سے بھی بطور قرض لیں اور پھر اس سے اپنے لیے کوئی ذریعہ آمدن بنا لیں تو یہ سب سے اچھی صورت ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/ 308)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (78289 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب