الحمد للہ.
سوال نمبر ( 36863 ) کے جواب میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زيارت کے آداب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اورکچھ زائرین جن مخالفات کے مرتکب ہوتے ہیں وہ ذيل میں دی جاتی ہيں :
پہلی مخالفت :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپکارنا اوران سے مدد مانگنا یا ان سے تعاون طلب کرنا ، جس طرح کہ بعض یہ کہتے ہیں : یا رسول اللہ! میرے مریض کوشفا نوازدیں ، یا رسول اللہ! میرا قرض ادا کردیں ، اے میرے وسیلہ ، اے میری ضرورت کے دروازے ، یا اس طرح کے دوسرے شرکیہ الفاظ وکلمات وغیرہ جوکہ ایسی خالص توحید کے منافی ہیں جوبندوں پراللہ تعالی کا حق ہے ۔
دوسری مخالفت :
نماز کی حالت کی طرح قبر کے سامنے کھڑے ہونا وہ اس طرح کہ دایاں ہاتھ اپنے بائيں ہاتھ پررکھ کرسینے یا اس سے نیچے باندھنا ، یہ فعل حرام ہے ، کیونکہ یہ حالت ذُل وعبادت کی حالت ہے اورعبادت اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکی جائز نہيں ۔
تیسری مخالفت :
قبر کے نزدیک جھکنا یا سجدہ کرنا یا اس کے علاوہ کوئى اورکام جواللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکےلیے کرنا جائزنہيں ، چنانچہ انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( کسی بشر کے لیے جائز نہيں کہ وہ کسی بشر کوسجدہ کرے ) مسند احمد ( 3 / 158 ) البانی نے صحیح الترغیب ( 1936-1937 ) اورارواء الغلیل ( 1998 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
چوتھی مخالفت :
قبرکے نزدیک اللہ تعالی کوپکارنا ، یا پھریہ اعتقاد رکھنا قبر کے نزدیک دعا قبول ہوتی ہے ، ایسا فعل بھی حرام ہے اس لیے کہ یہ شرک کے اسباب میں سے ہے ، اوراگر قبروں کے پاس یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے نزدیک دعا افضل اوربہتر صحیح اوراللہ تعالی کوزيادہ محبوب ہوتی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیں اس کی ترغیب دیتے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے قریب کرنے والی کسی بھی چيز کونہيں چھوڑا بلکہ اس پراپنی امت کو ترغیب دی ہے ، لہذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہيں کیا تواس سے یہ علم ہوا کہ یہ فعل شرعی نہیں بلکہ حرام اورممنوع ہے ۔
ابویعلی اورحافظ ضیاء نے المختارۃ میں علی بن حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے قریب ایک طاقچہ کے پاس آتا اوراس میں داخل ہوکر دعا کرتا توانہوں نے اسے منع کردیا اورکہنے لگے :
"کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ بیان کروں جومیں نے اپنے والد سے انہوں میرے دادا سے سنی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( تم میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اورنہ ہی اپنے گھروں کو قبریں بناؤ ، اور تم جہاں بھی ہو مجھ پردرود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے ) ابوداود ( 2042 ) البانی نے صحیح ابوداود ( 1796 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
پانچویں مخالفت :
جو شخص مدینہ نہیں جاسکتا وہ کسی دوسرے کے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام بھیج دیتا ہے، اورکچھ زائرین یہ سلام پہنچاتے بھی ہیں، یہ فعل بدعت ہے اورمن گھڑت ہے ، سلام بھیجنے والے! اوراسے پہنچانے والے! اس کام سے رک جاؤ تم دونوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہونا چاہیے : ( مجھ پردرود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی ہومجھ پرتمہاراسلام پہنچ جاتا ہے )
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان : ( یقینا زمین میں اللہ تعالی کےفرشتے گھوم رہے ہیں جومیری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں )
مسند احمد ( 1 / 441 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 1282 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی صحیح الجامع ( 2170 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
چھٹی مخالفت :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی کثرت اورتکرار سے زيارت کرنا ، جیسے کہ ہرفرض نماز کے بعد یا پھرروزانہ کسی معین نماز کے بعد قبر کی زيارت کرنا ، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت ہوتی ہے : ( میری قبرکوتہوار نہ بناؤ )
ابن حجرہیتمی رحمہ اللہ نے مشکاۃ کی شرح میں کہا ہے کہ : حدیث میں مذکور"عید"، "اعیاد"میں سے اسم ہے ، کہا جاتا ہے : "عَادَہ واِعتَادَہ وتَعَوَّدہ صارلہ عادۃ "، یعنی اس کی عادت بن گئى، اورحدیث کا معنی یہ ہوگا کہ : میری قبر کوتکراراورباربار آنے والی جگہ نہ بناؤ کہ وہاں کثرت سے آؤ ، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( مجھ پردرود پڑھا کرکیونکہ تم جہاں بھی ہو تمہارا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے ) لہذا اس میں ہی ایسا کرنے سے کفائت ہے ۔ ابن حجر رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئی
اورابن رشد کی کتاب "الجامع للبیان" میں ہے کہ :
"امام مالک رحمہ اللہ تعالی سے کسی اجنبی کے بارےمیں پوچھا گیا جوروزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پرحاضری دیتا تھاتووہ کہنے لگے : "اسکا حکم نہیں دیا گیا، اورانہوں نے یہ حدیث ذکر کی : ( اے اللہ میری قبر کوایسا بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جانے لگے ) البانی نے اسے "تحذیرالساجد من اتخاذ القبورمساجد "صفحہ ( 24 - 26 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
ابن رشد کہتے ہیں :
لہذا قبر پرکثرت سے جانا اورسلام کہنا ، اورروزانہ قبر پرآنا مکروہ ہے تاکہ قبربھی مسجد کی طرح ہی نہ بن جائے جہاں روزانہ نماز کی ادائيگى کے لیے لوگ جاتے ہیں، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے :
( اے اللہ میری قبر کوایسا بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے )
دیکھیں البیان والتحصیل لابن رشد ( 18 / 444- 445 ) ابن رشدرحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئى۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی سے مدینہ کے ان لوگوں کے بارہ میں سوال کیا گيا جوروزانہ ایک یا دوبار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پرکھڑے ہوکر اورسلام پیش کرتے ہیں اورکچھ دیر دعا کرتے ہیں توانہوں نے جواب دیا:
"مجھے ایسی کوئی بات کسی بھی اہل فقہ کی جانب سے نہيں ملی، اور اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح اسی طرح ممکن ہے جیسے پہلے لوگوں کی ہوئی تھی، اور امت کے ابتدائی لوگوں میں سے کسی کے بارے میں یہ نہيں ملتا کہ وہ ایسا کام کیا کرتے تھے ۔
دیکھیں : "الشفا بتعریف حقوق المصطفی" ( 2 / 676 )
ساتویں مخالفت :
مسجد کی کسی بھی جانب سے قبرکی جانب متوجہ ہونا ، اورجب بھی مسجد میں داخل ہویا نماز سے فارغ ہو تو قبرکی جانب رخ کرلینا، اوراپنے ہاتھ بالکل سیدھے کرلینا اورسلام پڑھتے ہوئے اپنے سر اورٹھوڑی کوجھکا لینا ، یہ منتشر بدعات اورمخالفات میں سے ہیں۔
اللہ کے بندو اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو اوران سب بدعات اورمخالفات سے بچ جاؤ ، اورخواہشات اوراندھی تقلید کرنے سے اجتناب کرو اوراپنے معاملات میں ھدایت اوردلیل پرقائم رہو اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيّنَةٍ مّن رَّبّهِ كَمَن زُيّنَ لَهُ سُوء عَمَلِهِ وَاتَّبَعُواْ أَهْوَاءهُمْ
کیا وہ شخص جواپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ، جس شخص کے لیے اس کا برا کام مزين کردیا گيا ہواوروہ اپنی نفسانی خواہشات کا پیروکار ہو؟ محمد ( 14 )
ہم اللہ تعالی سے دعا گوہيں کہ وہ ہمیں ہدایت یافتہ اورہدایت دینے والوں اور سیدالمرسلین کی سنت پرچلنے والا بنائے .