سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا مسافر سنتيں ادا كرے گا ؟

48997

تاریخ اشاعت : 22-11-2010

مشاہدات : 8927

سوال

اگر ميں مسافر ہوں اور مسجد ميں امام كے ساتھ پورى نماز ادا كروں تو كيا سنن موكدہ ادا كروں يا نہ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسافر جتنے چاہے نفل ادا كر سكتا ہے اس كے ليے نوافل ترك كرنے مسنون نہيں، صرف نماز ظہر كى پہلى اور بعد اور مغرب اور عشاء كى سنن موكدہ ترك كرنا مسنون ہے.

ليكن اس كے علاوہ باقى سنتيں مسافر ادا كرے گا، صحيح مسلم ميں ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں فجر كى سنن موكدہ ادا كيا كرتے تھے.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 680 ).

اور اسى طرح يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے موقع پر صلاۃ ضحى كى آٹھ ركعت ادا كى تھيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 357 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 336 ).

اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں نماز وتر ادا كيا كرتے تھے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1000 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" رہا سنن راتبہ و موكدہ سنتوں كا مسئلہ، چنانچہ ميں نے سنت ميں پائے جانے والے نوافل پر تامل اور غور وفكر كيا تو مجھ پر يہ ظاہر ہوا كہ ظہر اور مغرب اور عشاء كى موكدہ سنتيں ادا نہيں كى جائينگى.

ليكن ان كے علاوہ باقى سنتيں اور نوافل ادا كيے جائينگے، مثلا فجر كى سنتيں، اور وتر، اور قيام الليل اور چاشت كى نماز، اور تحيۃ المسجد، حتى كہ باقى مطلقا نوافل ادا كيے جائينگے" اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 258 ).

سفر ميں موكدہ سنتيں ادا كرنے والے شخص پر ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انكار كيا اور اسے اچھا نہ جانا.

بخارى اور مسلم ميں حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں مكہ كے راستے ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ تھا تو انہوں نے ہميں ظہر كى دو ركعت پڑھائيں، پھر وہ اپنے پڑاؤ والى جگہ كى جانب آئے اور ہم بھى ان كے ساتھ تھے حتى كہ وہ اپنى جگہ ميں آكر بيٹھ گئے اور ہم بھى ان كے ساتھ بيٹھ گئے، تو وہ نماز والى جگہ كى طرف متوجہ ہوئے اور كچھ لوگوں كو كھڑے ديكھا تو كہنے لگے: يہ لوگ كيا كر رہے ہيں ؟

ميں نے كہا: وہ نفلى نماز ادا كر رہے ہيں، تو انہوں نے فرمايا: اگر ميں نے نفل پڑھنے ہوتے تو نماز مكمل كرتا، ميرے بھتيجھے ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا اور ان كى صحبت ميں رہا تو انہوں نے دو ركعت سے زيادہ نماز ادا نہيں كى حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى اور ميں نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى بھى صحبت اختيار كى تو انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كى حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى، اور ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ بھى رہا تو انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كى حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى، پھر ميں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ رہا تو انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كى حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى روح قبض كر لى، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہترين نمونہ ہيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1102 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 689 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب