الحمد للہ.
چھوٹے بچے كے حج كى مشروعيت كا بيان ہو چكا ہے، اور يہ كہ اس كا يہ حج فرضى نہيں ہو گا، اور بچے كا ولى اس سلسلے ميں كيا كرے اس كا بھى بيان ہو چكا اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ مندرجہ ذيل سوالات كے جوابات ضرور ديكھيں:
( 13636 ) اور ( 36862 ) اور ( 14621 ).
اور اس كے ساتھ ساتھ بچے كے ولى اور سربراہ كو ان حالات كا بھى خيال كرنا چاہيے جس ميں وہ بچے كو احرام باندھنا چاہتا ہے؛ اگر تو وقت ايسا ہو جس ميں احرام بچے كے ليے كوئى مشقت نہ ہو يعنى رش كى بنا پر اسے مشقت نہ ہو تو اسے بچے كو احرام باندھنا چاہيے، اور اگر حج ميں يا رمضان ميں عمرہ كے وقت رش اور ازدھام يا ولى كے ضعف و ناتوانى وغيرہ كى بنا پر احرام بچے كے ليے مشقت كا باعث ہو تو اس كےحق ميں بہتر يہى ہے كہ وہ اسے احرام نہ باندھے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے يہ اسے صحيح طرح مناسك ادا نہ كرنے دے، جو كہ ايك مطلوب ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 24 ).
ليكن بہت سے لوگ ان مشكلات اور صعوبتوں كا بہتر اندازہ نہيں لگا سكتے، يا پھر ان كے گمان پر يہ غالب ہو جاتا ہے كہ وہ ان صعوبتوں اور مشكلات كو برداشت كر ليں گے، ليكن معاملہ ان كے اندازے كے برعكس نكلتا ہے، اور بعض اوقات تو بچہ خود بھى احرام ميں رہنے كا متحمل نہيں ہو سكتا اور بچے كے سربراہ اور ولى كے ليے بچے كو احرام ميں باقى ركھنا مشقت كا باعث بن جاتا ہے، تو اس حالت ميں حكم كيا ہو گا ؟
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مشہور مذہب ( يعنى حنبلى مذہب ميں ) يہ ہے كہ اسے احرام پورا كرنے كا التزام كرنا ہو گا؛ كيونكہ حج اور عمرہ كو مكمل كرنا واجب ہے.
اور دوسرا قول جو كہ ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مذہب ہے، كہ پورا كرنا لازم نہيں؛ كيونكہ بچہ مكلف نہيں ہے، اور نہ ہى اس پر واجبات لازم ہيں.
اور يہى قول اقرب الى الصواب ہے، جو كہ ظاہر ہے، اور اسى كى طرف صاحب الفروع ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ كے شاگرد ابن مفلح ) مائل ہيں.
اس بنا پر وہ احرام كھول كر حلال ہو جائے اور اس پر كچھ لازم نہيں آئے گا، اور حقيقت ميں يہ لوگوں كے ليے زيادہ نرمى كا باعث ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے بچے كے ولى كا خيال ہو كہ بچے كو احرام باندھنا آسان ہے، اور پھر اس كى توقع كے برعكس معاملہ پيدا ہو تو مسئلہ مشكل ہو جائے، اور لوگوں ميں آج يہ بہت ہو رہا ہے.
اور اگر ہم اقرب الى الصواب والے قول كو صحيح علت كى بنا پر ليں تو ہم سے يہ مشكل زائل ہو جاتى ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 25 ) اور الفتاوى ( 22 / 148 ) بھى ديكھيں.
واللہ اعلم .