سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا سحري كےوقت ورزش كرنےوالا شخص ہرمون والي دعا كھا سكتا ہے ؟

سوال

ميں جسماني كھيل ( باڈي بلڈرنگ ) كھيلتا اور افطاري كےخون ميں بعد انجكشن لگواتا ہوں ليكن اشكال يہ ہےكہ يہ انجكشن ہرمونات كےہيں اور روزے كي وقت خون ميں گردش كرتےہيں توكيا يہ روزے پر اثر انداز تو نہيں ہوتے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم اميد كرتے ہيں كہ اس كھيل كا كھلاڑي شرعي شروط كو مد نظر ركھ كر يہ كھيل كھيلتا ہوگا، اس ليے كہ يہ كھيل ايسا ہے جس ميں تماشائيوں كے سامنے جسم كےوہ اعضاء پيش كيے جاتےہيں جو ستر ميں شامل ہيں اور ان كا چھپانا ضروري ہے چہ جائيكہ جسم كونقصان دينے والي اشيا استعمال كرنا جيسا كہ ان كا گمان ہے .

اور مقوي اور ہرمونات يا پھر رات كےوقت كھانا پينا اور اس كے اثر كا سارا دن باقي رہنا جائز ہے ليكن ان اشياء كا دن كےوقت استعمال ممنوع اور ناجائز ہے يعني طلوع فجر سےليكر غروب آفتاب تك ان اشياء كا استعمال ممنوع اور ناجائز ہے .

اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

تم كھاتے پيتےرہو يہاں تك كہ صبح كا سفيد دھاگہ سياہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے پھر رات تك روزے كوپورا كرو البقرۃ ( 187 )

شريعت اسلاميہ نےسحري كھانے اور اسے آخر رات تك مؤخر كرنے پر ابھارا ہے كيونكہ ايسا كرنےميں روزہ دار كواعانت ومدد حاصل ہوتي ہے.

انس بن مالك رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: سحري كھايا كرو كيونكہ سحري ميں بركت ہے.

صحيح بخاري حديث نمبر ( 1823 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1095 )

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا كہ:

حديث ميں مذكور بركت سے مراد كيا ہے؟

شيخ كا جواب تھا:

سحري كي بركت سے شرعي اور بدني بركت مراد ہے، شرعي بركت يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي اطاعت وفرمانبرداري اور ان كے حكم كي بجا آوري ، اور بدني بركت يہ ہےكہ: روزے كےليے بدني طاقت اورغذائيت كا حصول ہوگا.

ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر( 339 )

اور اس كھيل كےليے ايسےہرمونات كي دعا كھانے كےمتعلق يہ ہے كہ اس كےنقصانات كوديكھا جائےگا اگر تواس كےنقصانات ثابت ہوجائيں توان كا استعمال حلال نہيں .

عبادۃ بن صامت رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فيصلہ كيا كہ: نہ تو خود نقصان اٹھاؤ اور نہ ہي كسي كو نقصان دو. سنن ابن ماجۃ حديث نمبر( 2340 )

امام نووي رحمہ اللہ كہتےہيں كہ يہ حديث حسن ہے اور اس كےكئي ايك طرق ہيں جوايك دوسرے سےمل كر تقويت ديتےہيں، اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 896 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب