سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا پندرہ روز عادت سے زيادہ ماہوارى حيض شمار كرے يا كہ روزہ ركھے ؟

سوال

مجھے خون ميں زيادتى كى مشكل درپيش ہے، اور ماہوارى صحيح نہيں آتى، اگر دس يا پندرہ روزہ سے زيادہ خون آئے تو كيا ميں نماز ادا كروں يا نہ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت ميں مدت حيض كى كم از كم يا زيادہ سے زيادہ مدت كى كوئى دليل نہيں پائى جاتى.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا حيض كے ليے كوئى كم از كم يا زيادہ سے زيادہ مدت معلوم ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" صحيح يہى ہے كہ حيض كى كم از كم يا زيادہ سے زيادہ ايام كى كوئى حد نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور يہ آپ سے حيض كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ يہ گندگى ہے چنانچہ حيض كى حالت ميں عورتوں سے دور رہو، اور پاك صاف ہونے سے قبل ان كے قريب نہ جاؤ البقرۃ ( 222 ).

چنانچہ اللہ تعالى نے ممانعت كى انتہاء كى معلوم حد مقرر نہيں كى بلكہ ممانعت كى انتہاء اور حد طہر و پاكى مقرر فرمائى، جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ حكم كى علت حيض كى موجودگى يا عدم موجودگى ہے، اس ليے جب بھى حيض آئے حكم ثابت ہوگا، اور جب بھى حيض سے پاك صاف اور طاہر ہو جائے تو اس كے احكام بھى زائل ہو جائينگے، پھر تحديد كى كوئى دليل نہيں ملتى، حالانكہ اسے بيان كرنے كى ضرورت ہے، چنانچہ اگر عمر يا زمانے كى تحديد شرعا ثابت ہوتى تو كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا بيان ضرور ملتا.

اس بنا پر جب بھى عورت كو حيض كا معروف خون آئے تو وہ بغير كسى معين مدت كے حيض ہى شمار ہوگا، الا يہ كہ عورت كو مسلسل خون آتا رہے اور منقطع نہ ہو، يا پھر قليل سى مدت مثلا مہينہ ميں ايك يا دو روز كے ليے منقطع ہو تو اس وقت يہ استحاضہ كا خون ہو گا "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / 271 ).

اس بنا پر حيض كا خون ركنےاور غسل كر كے پاكى اختيار كرنے سے قبل آپ كے ليے نماز ادا كرنى جائز نہيں، حيض كا خون ركنے كى دو علامتيں معروف ہيں، يا تو سفيد مادہ خارج ہو جو حيض ختم ہونے كے بعد آتا ہے، يا پھر خون مكمل طور پر خشك ہو جائے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 5595 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب