الحمد للہ.
جى ہاں سنت نبويہ ميں روزے دار كے ليے افطارى كے وقت پڑھنے كے ليے مخصوص دعائيں ہيں مثلا:
" ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "
پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا "
روزے دار اس كے علاوہ افطارى كے وقت جو چاہے دعا كر سكتا ہے، اس ليے نہيں كہ سنت ميں يہ بالنص ثابت ہيں، بلكہ اس ليے كہ يہ عبادت كے اختتام كا وقت ہے، اور اس وقت مسلمان كے ليے دعاء كرنى مشروع ہے.
شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
كيا افطارى كے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى دعاء كرنى ثابت ہے ؟
اور اس دعا كا وقت كيا ہے، اور كيا روزے دار مؤذن كى اذان كا جواب دے يا كہ افطارى كرنے ميں مشغول رہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يقينا افطارى كے وقت دعاء قبول ہونے كا وقت ہے؛ كيونكہ يہ عبادت كا انتہائى اور آخرى وقت ہے، اور اس ليے بھى كہ ـ غالبا ـ انسان افطارى كے وقت نفسياتى طور پر بہت كمزور ہوتا ہے، اور جب انسان نفسياتى طور پر كمزور ہو اور اس پر رقت قلب طارى ہو تو اتنا ہى اللہ كى طرف رجوع اور انابت كرنے والا ہوتا ہے.
مشروع اور ثابت شدہ دعاء يہ ہے:
" اللهم لك صمت ، وعلى رزقك أفطرت "
اے اللہ ميں نے تيرے ليے روزہ ركھا اور تيرے رزق پر ہى افطار كيا.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے افطارى كے وقت درج ذيل دعاء بھى ثابت ہے:
" ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "
پياس چلى جائے، اور رگيں تر ہو گئيں، اور ان شاء اللہ اجروثواب بھى ثابت ہو گيا "
ان دونوں حديثوں ميں اگرچہ كچھ ضعف ہے، ليكن بعض اہل علم نے انہيں حسن كہا ہے، ہر حال ميں جب يہ يا اس كے علاوہ كوئى اور دعاء افطارى كے وقت كرے تو يہ دعاء كى قبوليت كا وقت ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 341 ).
حديث " ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله "
اور حديث:
" اللهم لك صمت ، وعلى رزقك أفطرت "
كى تخريج ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 26879 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اس ميں پہلى حديث كے ضعيف اور دوسرى كے حسن ہونے كا بيان ہے، اور اس جواب ميں دعاء كے متعلق شيخ الاسلام ابن تيمہ رحمہ اللہ كا فتوى بھى ذكر كيا گيا ہے.
ليكن سحرى كے وقت كوئى خاص دعاء نہيں ہے، صرف مشروع يہى ہے كہ بسم اللہ پڑھ كر كھانا كھايا جائے، اور كھانے كھا كر كھانے كے بعد پڑھى جانے والى دعا پڑھيں، جس طرح ہر كھانے كے بعد پڑھى جاتى ہے.
ليكن سحرى رات كے آخرى تہائى حصہ ميں سحرى كھانا بہتر ہے كيونكہ اس وقت آسمان دنيا پر نزول الہى ہوتا ہے، اور يہ دعاء كى قبوليت كا وقت ہے، اس طرح اگر سحرى رات كے آخرى حصہ ميں كھائى جائے تو اس سے بھى مستفيد ہوا جائيگا، اور سنت پر بھى عمل ہوگا.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہمارا رب ہر رات رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نازل ہو كر يہ پكار لگاتا ہے:
كون ہے جو مجھ سے مانگے اور دعا كرے ميں اس كى دعا قبول كروں ؟ اور كون ہے جو مجھ سے سوال كرے تو ميں اسے عطا كروں، اور كون ہے جو مجھ سے بخشش طلب كرے اور ميں اسے بخش دوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1094 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 758 ).
چنانچہ مسلمان شخص كو اس وقت دعا كرنى چاہيے سحرى كے ليے نہيں بلكہ اس ليے كہ يہ دعاء كى قبوليت كا وقت ہے.
رہا نيت كا مسئلہ تو نيت دل سے ہوتى ہے، نہ كہ زبان سے، اور پھر زبان سے نيت كے الفاظ كى ادائيگى مشروع اور جائز نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جس كے دل ميں يہ بات پيدا ہوئى كہ وہ كل روزہ ركھےگا تو اس كى نيت ہو گئى "
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 37643 ) اور ( 22909 ).
واللہ اعلم .