جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کئی بار قسمیں اٹھائی ہیں لیکن کسی کا کفارہ ادا نہیں کیا۔

سوال

مجھے  بہت جلدی غصہ آ جاتا ہے اور میں بہت زیادہ قسمیں اٹھاتا ہوں پھر ان میں سے بہت سی قسمیں ٹوٹ بھی جاتی ہیں، اب مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنی قسموں کا کفارہ دینا ہے، مجھے ان کی تعداد کا علم نہیں ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ اپنی توڑی ہوئی ساری قسموں کا کفارہ دے دوں؟ تو اس کیلیے میں کیا کروں؟ کیا میں قسموں کا کفارہ دینے کیلیے دوست احباب اور عزیز و اقارب کی کھانے پر دعوت کر سکتا ہوں؟  اور اگر طلاق کی قسم اٹھا لوں اور پھر اپنی اس قسم کو توڑ بھی دوں تو کیا اس سے بھی کفارہ واجب ہو گا؟ واضح رہے کہ طلاق کی قسم اٹھاتے ہوئے نیت واضح نہیں ہوتی، اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ طلاق کی نیت نہیں ہوتی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بہت زیادہ قسمیں اٹھانا مکروہ عمل ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کافر مان ہے:
( وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ)
ترجمہ: اور بہت زیادہ  قسمیں کھانے والے کسی بھی ذلیل کی بات  نہ مانئے ۔[ القلم :10]
تو اس آیت میں بہت زیادہ قسمیں اٹھانے والے کی مذمت ہے، جس سے اس عمل کی کراہت ثابت ہوتی ہے، یہ بات امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے "المغني" (13/439) میں لکھی ہے۔

دوم:

اگر کسی شخص نے بہت سی قسمیں کھائیں  اور انہیں توڑ دیا ، پھر کسی بھی قسم کا کفارہ بھی نہیں دیا تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

پہلی صورت:  قسم کسی ایک ہی چیز کے بارے میں ہو، مثلاً: وہ کہے کہ: اللہ کی قسم میں سگریٹ نوشی نہیں کروں گا، پھر قسم توڑ دیتا ہے اور سگریٹ نوشی کرنے لگتا ہے، پھر دوبارہ سگریٹ نہ پینے کی قسم اٹھاتا ہے اور  پھر اپنی قسم کو توڑ دیتا ہے تو ایسے میں اسے صرف ایک بار ہی کفارہ ادا کرنا ہو گا۔

دوسری صورت:  قسمیں مختلف کاموں پر اٹھائے، مثلاً: کہے کہ  اللہ کی قسم میں نے نہیں پی۔  اللہ کی قسم میں نے نہیں پہنا۔ اللہ کی قسم فلاں جگہ نہیں جاؤں گا، پھر ان تینوں قسموں کو وہ توڑ دیتا ہے، ان میں سے کسی کا کفارہ نہیں دیتا تو  کیا اسے تینوں قسموں کا ایک ہی کفارہ دینا ہو گا یا تین الگ الگ کفارے ہوں گے؟ اس بارے میں فقہائے کرام کے ہاں اختلاف ہے، تو جمہور علمائے کرام  متعدد کفارے لاگو ہونے کے قائل ہیں، اور یہی موقف صحیح ہے؛ کیونکہ اس شخص نے الگ الگ تین کاموں کیلیے قسمیں اٹھائی تھیں اور ہر قسم کا دوسری قسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کے متعلق تفصیل کیلیے آپ  "المغني" (9/406) کا مطالعہ کریں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میں نوجوان ہوں اور تین سے زائد بار میں نے قسم اٹھائی ہے کہ میں حرام کام نہیں کروں گا، تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر ایک کفارہ ہو گا یا تین ؟ اور مجھے کفارے میں کیا کرنا ہو گا؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا:
"آپ پر ایک کفارہ ہے، جو کہ دس مساکین کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن آزاد کرنا ہے، اگر کسی کے پاس اس کی استطاعت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھ لے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ )
ترجمہ: اللہ تمہاری مہمل قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے  دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ  دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کی پوشاک ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو ۔ اور (بہتر یہی ہے کہ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ [ المائدة:89]

تو اس طرح کوئی بھی قسم جس کسی کام کو کرنے کیلیے یا کسی کام سے بچنے کیلیے کھائی جائے چاہے اس میں تکرار بھی ہو اور کسی بھی قسم کا کفارہ نہیں دیا ہوا تو اس پر ایک ہی کفارہ ہو گا، اگر اس نے کسی قسم کا کفارہ دیا  اور پھر دوسری بار قسم اٹھا لی تو اب قسم توڑنے پر اسے دوبارہ کفارہ دینا ہو گا، اسی طرح تیسری بار  بھی قسم اٹھا لی تو دوسری قسم توڑنے پر  تیسری کا الگ سے کفارہ دینا ہو گا ۔

لیکن اگر قسمیں متعدد افعال پر  ہوں کسی کے کرنے کی قسم اٹھائی تھی تو کسی کو چھوڑنے کی  تو پھر ہر کام کی قسم کیلیے الگ سے کفارہ ہو گا، مثلاً: ایک شخص کہتا ہے کہ: اللہ کی قسم میں فلاں سے  بات نہیں کروں گا۔ اللہ کی قسم میں کھانا نہیں کھاؤں گا، اللہ کی قسم میں فلاں سمت سفر نہیں کروں گا، یا کہے  کہ: اللہ کی قسم میں فلاں سے بات کروں گا۔ اللہ کی قسم میں فلاں کو ماروں گا وغیرہ ۔

مسکین کو کھانا کھلانے سے متعلق یہ ہے کہ ہر مسکین کو نصف صاع علاقائی غذائی جنس دی جائے اور یہ تقریبا  ڈیڑھ کلو بنتا ہے۔

اسی طرح کپڑے دینے کے متعلق یہ ہے کہ  اتنا لباس دیا جائے جس سے کوئی نماز ادا کر سکے، مثلاً: قمیص دے دے، یا دو چادریں دے دے۔ اور اگر مساکین کو رات یا دوپہر کا کھانا کھلا دے تو بھی کافی ہے؛ کیونکہ  ابھی بیان کردہ مذکورہ بالا آیت  میں عموم پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق سے نوازے" ختم شد
"مجموع فتاوى الشيخ ابن باز" (23/145)

سوم:

اگر آپ کو یقینی طور پر  قسموں کی تعداد کا علم نہیں ہے، تو پھر آپ ان کی تعداد کے متعلق تخمینہ لگائیں اور تقریبی تعداد کے مطابق اتنے کفارے ادا کریں کہ آپ کو ظن غالب ہونے لگے کہ اب میں نے اپنے ذمے تمام کفارے ادا کر دیے ہیں۔

چہارم:

اگر آپ کے رشتہ دار غریب اور مسکین ہیں ، آپ ان میں سے دس افراد کو دوپہر یا رات کے کھانے پر مدعو کرتے ہیں تو  اس طرح ایک قسم کا کفارہ ادا ہو جائے گا، چاہے آپ انہیں ایک ہی مجلس میں دعوت دیں یا الگ الگ کھانے کی دعوت دیں۔

اگر کسی کے پاس غلام آزاد کرنے ، یا لباس پہنانے یا کھانا کھلانے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ تین دن کے روزے رکھے، جیسے کہ پہلے آیت کریمہ میں گزر چکا ہے۔

پنجم:

طلاق کی قسم اٹھانا بہت بڑی بات ہے، اگر انسان  قسم پوری نہ کر سکے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، جمہور اہل علم اسی موقف کے قائل ہیں، اس لیے اس سے بچنا لازمی امر ہے۔

کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ طلاق کی قسم اٹھانے والے کی نیت کو دیکھا جائے گا، اگر اس نے محض ڈرانا دھمکانا چاہا تھا، یا کسی کام کی ترغیب دلانا چاہتا تھا یا کسی کام سے روکنا چاہتا تھا ، یا کسی کام کی تصدیق یا تکذیب مقصود تھی اور پھر اس نے قسم توڑ دی  تو اس پر قسم کا کفارہ لاگو ہو گا، اور اگر اس نے واقعی طلاق کی قسم اٹھاتے ہوئے طلاق واقع ہونے کی نیت کی تھی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

اب اس سلسلے میں ہر شخص کو اپنی نیت کے بارے میں زیادہ آگہی ہوتی ہے، تاہم اگر دونوں میں سے کسی ایک بارے میں ظن غالب ہو تو غالب ظن کے مطابق ہی عمل کیا جائے گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب