الحمد للہ.
اول:
اگر کوئی شخص تجارت کی غرض سے حصص خریدتا ہے تو سال گزرنے پر وہ ان کی زکاۃ سامان تجارت کی طرح ادا کرے گا، چنانچہ سال کے آخر میں مارکیٹ قیمت کے مطابق چالیسواں حصہ زکاۃ دے گا۔
اور اگر کوئی شخص حصص اس لیے خریدتا ہے کہ انہیں فروخت نہیں کرنا بلکہ ان سے حاصل ہونے والے نفع کو استعمال کرے گا، حصص فروخت نہیں کرے گا تو یہ شخص ان حصص کے منافع کی اس رقم کی زکاۃ ادا کرے گا جو کمپنی کے پاس اس کے حصص کے مقابل موجود ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (69912 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
جب سال مکمل ہو جائے اور آپ پر ابھی کچھ اقساط باقی ہوں تو آپ پر ان بقیہ اقساط کا اعتبار کیے بغیر زکاۃ ادا کرنا واجب ہے؛ کیونکہ اہل علم کے صحیح ترین قول کے مطابق قرض زکاۃ پر اثر انداز نہیں ہوتا، یہی موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔
دیکھیں: المجموع (5/317)، نهاية المحتاج (3/133)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس موقف کو میں راجح قرار دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ زکاۃ مطلق طور پر واجب ہے چاہے انسان پر اتنا قرض ہو کہ اس سے مال نصاب سے بھی کم ہو جائے، ہاں اگر کسی قرض کی ادائیگی کا وقت زکاۃ کے وقت سے پہلے آ گیا ہے تو پہلے قرض ادا کرے اور بقیہ مال کی زکاۃ دے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (6/39)
واللہ اعلم