سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

جنبی کی اذان کا حکم اور کیا جنبی شخص مسجد میں اذان دینے کے لیے داخل ہو سکتا ہے؟

سوال

ایک شخص نے بھول کر جنبی حالت میں فجر کی اذان دی ، اور اذان کے مکمل ہونے تک اسے یاد نہیں آیا کہ وہ جنبی تھا، پھر بعد میں وہ گھر گیا اور غسل کر کے آیا اور نماز کے لیے اقامت پاکی کی حالت میں کہی ، تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ جنبی کے لیے مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اذان کے لیے وضو ہونا مستحب ہے واجب نہیں ہے، اس بارے میں ایک حدیث بھی ہے کہ: (اذان صرف با وضو شخص ہی دے) ترمذی: (147)

یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعا اور سیدنا ابو ہریرہ پر موقوفاً دونوں طرح مروی ہے اور دونوں ضعیف ہیں ثابت نہیں ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: "تمام المنة" ص (154)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/ 248) میں کہتے ہیں:
"مؤذن کے لیے حدث اصغر اور جنابت دونوں سے پاک اور با وضو ہونا مستحب ہے۔" اور اس کے لیے دلیل سابقہ حدیث کو بنایا۔

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
کیا بغیر وضو کے اذان دینا جائز ہے؟ اور جنبی شخص کے اذان دینے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا: "حدث اکبر یا اصغر کے ساتھ اذان صحیح ہو گی، لیکن افضل یہ ہے کہ دونوں سے پاک ہو۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/67)

جنبی شخص کو مسجد میں رکنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر اذان وغیرہ کے لیے مسجد میں جانے کی ضرورت ہو تو وضو کر کے چلا جائے۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (1/148) میں ہے کہ:
"جنبی کے لیے مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا  یعنی : جب تک تم غسل نہیں کر لیتے مسجد میں جنبی کے لیے جانا جائز نہیں ہے الا کہ محض مسجد سے گزرنا ہو۔ [النساء: 43]
الا کہ وضو کر لے، جیسے کہ سعید بن منصور نے عطاء بن یسار سے بیان کیا ہے کہ : میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نماز کے وضو جیسا وضو کر کے مسجد میں جنبی حالت میں بیٹھے ہوتے تھے ۔
المبدع کتاب میں لکھتے ہیں کہ: اس کی سند صحیح ہے، ویسے بھی وضو کرنے سے حدث میں قدرے کمی آئے گی، اس لیے ممانعت کا بھی کچھ حصہ زائل ہو جائے گا۔ تقی الدین شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ: جنبی کے لیے جائز ہے کہ وہ بھی مسجد میں اسی طرح سویا رہے جیسے دیگر لوگ سوتے ہیں۔" ختم شد مختصراً
مزید کے لیے آپ "الشرح الممتع" (2/57) کا مطالعہ کریں۔

اور اگر مؤذن بھول کر مسجد میں داخل ہو گیا تو اس پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کا بھولنے کا عذر قبول کیا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا
ترجمہ: پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ نہ فرما۔ [البقرة: 286] اور قرآن کریم کی اس دعا کے بارے میں صحیح مسلم: (126)میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے اس دعا کو قبول کیا۔ یعنی اللہ تعالی نے بھولنے والے اور خطا کار کو معاف کر دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب