الحمد للہ.
وسیلہ بنانے سے چار میں سے کوئی ایک معنی مراد لیا جاتا ہے:
اول: جس وسیلے کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان، اس کے رسول پر ایمان لا کر اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ کی اطاعت کے ذریعے اللہ کی جانب وسیلہ بنائیں، یہی وسیلہ قرآن مجید کی اس آیت سے مراد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔ [ سورة المائدة : 35]
اسی قسم میں اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ اور اسی طرح اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ سے مانگنا بھی شامل ہے۔
دوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے دعا کروا کر اللہ تعالی کی جانب وسیلہ اختیار کیا جائے اور اسی طرح مومن ایک دوسرے سے دعا کی درخواست کر کے وسیلہ بنائیں؛ حقیقت میں یہ بھی پہلے معنی کے ہی تابع ہے، اور شریعت میں اس کی ترغیب بھی ہے۔
سوم: کسی مخلوق کی شان اور عزت و مقام کو وسیلہ بنائیں، مثلاً: یہ کہیں کہ یا اللہ! میں تجھے تیرے نبی کی عزت کا واسطہ دیتا ہوں، یا اسی طرح کی بات کہے تو وسیلے کی اس قسم کو بعض علمائے کرام نے جائز قرار دیا ہے؛ لیکن یہ درست نہیں، ٹھوس اور یقینی بات یہی ہے کہ یہ حرام ہے؛ کیونکہ دعا میں صرف اللہ تعالی کے اسما و صفات کا وسیلہ جائز ہے۔
چہارم: بہت سے متاخرین کے ہاں وسیلہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں پکاریں اور آپ سے حاجت روائی کا مطالبہ کریں، یا فوت شدگان اولیا سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جائے؛ تو یہ شرک اکبر ہے؛ کیونکہ کسی بھی ایسے کام میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جس کی استطاعت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے تو یہ اس غیر اللہ کی عبادت ہے؛ اور غیر اللہ کی عبادت کرنا شرک اکبر ہے۔
واللہ اعلم.