جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

محض سجدہ کر کے اللہ کی عبادت کرنا

98156

تاریخ اشاعت : 28-02-2015

مشاہدات : 7259

سوال

میرا ایک دوست دیندار اور فرائض و سنن کا پابند ہے، میں نے اسے کئی بار سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے، یہ سجدہ نماز ،سہو، تلاوت یا شکر کے لئے نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی مرضی سےجب دل چاہتا ہے، سجدہ کرتا ہے، اور اس سجدہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ذکر و اذکار پڑھتا ہے، اور بطور دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان پیش کرتا ہے: (تم اپنے بارے میں کثرت سےسجدوں کیساتھ میری مدد کرو) تو کیا اسکا یہ عمل صحیح ہے یا بدعت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عبادات کیلئے بنیادی اصول توقیف [یعنی: عبادت کرنے کی دلیل ہو تو اس انداز سے عبادت کی جائے گی، اور اگر نہ ہو تو توقّف اختیار کیا جائے گا۔ مترجم] لہذا  اللہ تعالی کی عبادت اسی طریقہ سے کی جائے گی جس طرح اللہ تعالی نے طریقہ بتلایا ہے، اور شریعت میں بغیر کسی سبب کے سجدے کر کے اللہ کی عبادت کا تصور  نہیں ہے، چنانچہ سجدہ تلاوت اس وقت کیا جاتا ہے جب سجدہ تلاوت والی آیت پڑھی جائے، اور سجدہ شکر اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی شکرانے کے لائق نعمت ملے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ مردود ہے )بخاری: (2499)مسلم: (3242) اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں: (جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے)

نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/565)میں کہتے ہیں:
"اگر انسان اللہ تعالی کیلئے عاجزی و انکساری کرنے کیلئے بلا سبب  سجدہ کرے، تو اس کے بارے میں دو  توجیہات ہیں جنہیں امام الحرمین وغیرہ نے ذکر کیا ہے: [پہلی توجیہ] یہ سجدہ جائز ہے، اسی کے صاحب کتاب: "تقریب" قائل ہیں، اور [صحیح توجیہ ]یہ ہے کہ اس طرح سے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، اسی موقف کو امام الحرمین وغیرہ  نے صحیح کہا ہے، اور ابو حامد [غزالی] نے اسی کو قطعی طور پر صحیح قرار دیا، امام الحرمین کا کہنا ہے کہ: "میرے استاد -یعنی ابو محمد- اس طرح سجدہ کرنے پر سخت تنقید کرتے تھے، [اس سجدہ کو نا جائز کہنے والے ]اسے رکوع پر قیاس کرتے ہیں، کہ اگر نماز سے ہٹ کر کوئی صرف رکوع کرے تو سب اسے حرام قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، [البتہ ایسے سجدے جن کے بارے میں ] دلائل موجود ہیں وہ جائز  ہونگے، اس حکم میں دیگر اوقات میں کیے جانے والے سجدے کے ساتھ ساتھ نماز کے بعد کیا جانے والا سجدہ بھی شامل ہے " انتہی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے بد تر وہ عمل ہے جو کچھ لوگوں کی طرف سے سلام پھیرنے کے بعد الگ سے سجدہ کرنے کی صورت میں کیا جاتا ہے؛ بلاشبہ یہ عمل بدعت ہے، اور ائمہ میں سے کسی نے اسے مستحب نہیں کہا، [اس کی وجہ یہ ہے کہ] عبادات کی بنیاد شریعت اور اتباع پر ہوتی ہے، خواہش نفس اور بدعات پر عبادات کی بنیاد نہیں ہوتی؛ کیونکہ اسلام کی بنیاد دو چیزیں ہیں: صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اور اسی انداز سے عبادت کریں جس انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے بیان ہوئی ہے، لہذا ہم اللہ تعالی کی عبادت خواہش نفس اور بدعات کے ذریعے نہیں کر سکتے" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (2/242)

اور ابن الحاج "المدخل" (4/266) میں "صلاۃ الرغائب" کے بعد دو الگ سے سجدے کرنے کے بارے میں کہتے ہیں:
"نماز کا اصل مقصود قربِ الہی ہے، اور قرب الہی اطاعت گزاری سے ملتا ہے، بدعات، اور مکروہ اشیا سے نہیں ملتا۔۔۔ اور علمائے کرام نماز کے علاوہ صرف دو طرح کے سجدے کرنا جائز سمجھتے ہیں جن میں تیسرا سجدہ شامل کرنے کی گنجائش نہیں ہے، ان میں سے ایک سجدہ تلاوت ہے، اور دوسرا سجدہ شکر ہے[ان کے مطابق جو اسے جائز سمجھتے ہیں]، اور صلاۃ الرغائب کے بعد ہونے والے سجدے ان دونوں قسم کے سجدوں میں شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ  سلف صالحین -اللہ  ان سے راضی ہو-سے  ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے "انتہی

یہ بات ذہن نشین رہے کہ شیطان انسان کو بدعات میں گرانے کیلئے سر توڑ کوشش کرتا ہے، اسکی کئی وجوہات ہے:

- بدعت پر عمل کرنے سے ثواب نہیں ملتا

- بدعات میں پڑنے سے انسان سنتوں پر عمل کرنے  سے دور ہو جاتا ہے، اگرچہ اس میں یہ بھی بات ہے کہ : بدعت پر عمل کرنے والا شریعت میں نقص  تلاش کرتا ہے، گویا کہ بدعتی شخص  کے مطابق اس کو ایسے کام کی توفیق ملتی ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپکے صحابہ کرام ( نعوذ باللہ ) محروم تھے۔

جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : سوال میں مذکور  سجدہ  شرعی نہیں ہے، اس کے ناجائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ :

1. یہ بدعت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ: (ہر بدعت گمراہی ہے)

2. جس طرح صرف رکوع کر کے اللہ کی عبادت نہیں کی جاسکتی اسی طرح صرف سجدہ کر کے بھی اللہ کی عبادت نہیں کی جاسکتی۔

واللہ  اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب