الحمد للہ.
پہلی بات:
اہل سنت والجماعت کا صفات کے مسئلہ میں منہج یہ ہے کہ وہ اللہ عز وجل کی صفات کتاب اللہ اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کرتے ہیں، اور اس بات پر انکا کامل یقین ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بالکل مماثلت نہیں رکھتا؛ فرمانِ باری تعالی ہے: ( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ) یہ آیت عقیدہ مماثلت رکھنے والوں کا رد ہے، بعض علماء نے انہیں “مشبہہ” کا نام بھی دیا ہے، آیت کا اگلا حصہ ہے: ( وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ) الشورى/ 11 اس میں “معطلہ”کا رد ہے جو صفات کا انکار کرتے ہیں جنکا کہنا ہے کہ نام میں شراکت مماثلت کا موجب ہے ۔
اس سے پہلے ہم سوال نمبر (155206 ) کے جواب میں اسماء و صفات کے بارے میں مفید قواعد ہم نے ذکر کئے ہیں، ان کو دیکھنا بھی مفید ہوگا، اسکی طرح سوال نمبر (34630)کے جواب میں “اسماء و صفات پر ایمان” کا مطلب بیان کیا گیا ہے، اور چارممنوعہ چیزوں کا ذکر بھی ہے اور وہ ہیں: تحریف، تعطیل، تمثیل، اور تکییف یہ وہ امور ہیں جو بھی ان میں پڑ ےاس کا اسماء و صفات پر حقیقی معنوں میں ایمان نہیں ہے۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسمائہ الحسنی”میں اس بارے میں بہت ہی مفید قواعد ذکر کئے ہیں، جسے عربی میں مندرجہ ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کیاجاسکتاہے :
شیخ علوی بن عبد القادر السقاف حفظہ اللہ نے کتاب و سنت میں بیان شدہ اکیس قواعد توحید اسماء و صفات کے بارے میں اپنی کتاب ” صفات الله عز وجل الواردة في الكتاب والسنة “م
دوسری بات:
بھائی نے جس حدیث کا ذکر سوال میں کیا ہے وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقینا اللہ تعالی نے فرمایا: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی میں اسکے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں، اور میرے قریب ترین ہونے کیلئے سب سے پسندیدہ عمل فرض عبادات کو بجا لانا ہے، میرا بندہ نوافل کے ذریعےمیرا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اِسکا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقینا ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا) بخاری حدیث نمبر(6137)
تنبیہ: وحدت الوجود کے قائلین نے اس حدیث کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، نا کہ حلول کے قائلین نے ، حلول اور وحدت الوجود کے مابین فرق کیلئے سوال نمبر (147639)کا جواب ملاحظہ فرمائیں، – اُنکا کہنا ہے کہ جب مخلوق فرائض کی ادائیگی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرے تو خالق اور مخلوق کے یک جان ہونے کی دلیل یہ ہی حدیث ہے ، یعنی کہ -نعوذ باللہ- بندہ خود ذات معبود بن جاتا ہے، اللہ کی سماعت کے ذریعے سنتا ہے، اسی کی بصارت کے ذریعے دیکھتا ہے، دوسرے لفظوں میں خالق اور مخلوق ایک ہی ہو گئے! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، جبکہ جس حدیث کو انہوں نے دلیل بنانے کی کوشش کی ہے وہ حقیقت میں انہی کے خلاف ہے، کہ اس میں خالق اور مخلوق نیز دونوں میں فرق بھی ثابت کیا گیا ہے اسی طرح عابد اور معبود دونوں کو علیحدہ ثابت کیا گیا ہے ، ایسے ہی مُحِب اور محبوب، سائل اور مُجِیب میں فرق کیا گیا ہے، اس لئے اس حدیث میں یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ دو نوں ایک ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مُلحِداور وحدت الوجود کے قائلین كُنْت سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَيَدَهُ وَرِجْلَهُ “کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حدیث کئی وجوہات کی بنا پر اُنہی کے خلاف ہے :
جیسے کہ : مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْمُحَارَبَةِ ترجمہ: “جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی یقینا اس نے مجھے جنگ کے للکارا ہے” چنانچہ اللہ تعالی نے حربی دشمن ثابت کیا ، اور ولی ثابت کیاجو دشمن کے علاوہ ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ (دشمن)اور وہ (ولی) دونوں اپنے لئے ثابت کئے۔
ایسے ہی فرمایا: وَمَا تَقَرَّبَ إلَيَّ عَبْدِي بِمِثْلِ أَدَاءِ مَا افْتَرَضْت عَلَيْهِ ترجمہ: ” میرا بندہ فرائض سے بڑھ کر میرے قرب کیلئے کوئی عمل پیش نہیں کر سکتا” یہاں پر اللہ تعالی نے دو مختلف چیزیں بیان کیں، ایک بندہ جو اپنے رب کے قریب ہونا چاہتا ہے، اور دوسری :ذات باری تعالی جس نے بندے پر فرائض فرض کیے ہیں۔
ایسے ہی وَلَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ترجمہ: ” میرا بندہ نوافل کے ذریعےمیرا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ” اس جملہ میں قریب ہونے والا اور جسکی جانب بندہ قریب ہونا چاہتا ہے دونوں کو علیحدہ ثابت کیا، ایسے ہی مُحِب اور محبوب دونوں کو الگ الگ کیا، یہ تمام باتیں ان کے نظریہ”وحدت الوجود” کو پاش پاش کررہی ہیں۔
ایسے ہی فَإِذَا أَحْبَبْته كُنْت سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ …الخ ترجمہ: ” چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اِسکا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے ۔۔۔الخ”یہ سب کچھ اللہ تعالی نے اپنے بندے کو اس وقت دیا ہے جب بندے سے محبت ہوجائے جبکہ انکے ہاں محبت سے پہلے اور بعد کا معاملہ یکساں ہی ہے۔ “مجموع الفتاوی: (2/371، 372)”
اسی طرح شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا:
حدیث قدسی میں ہےکہ : وَلَئِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ “پھر اگر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقینا ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا” یہاں پر سوالی اور جس سے سوال کیا گیا دونوں میں اللہ تعالی نے فرق کیا ، طلب گارِ پناہ اور جس سے پناہ طلب کی جائے ان دونوں میں فرق کیا، اور بندے کو اپنے رب کا سوالی اور طالبِ پناہ بنایا۔
یہ حدیث مبارکہ بہت سے عظیم مقاصدکو جمع کئے ہوئے ہے، “مجموع الفتاوی، (17/134)”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح و مختلف معانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: “ان تمام معانی کی وجہ سےعقیدہ وحدت الوجود اور وحدتِ مطلقہ کے قائلین کیلئے اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ حدیث کے بقیہ حصہ میں ہے: (وَلَئِنْ سَأَلَنِي وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي) ترجمہ: “اگر بندہ مجھ سے مانگے، اگر بندہ میری پناہ چاہے” ان پر رد کرنے کیلئے بالکل واضح ہے” فتح الباری (11/345)
امام شوکانی رحمہ اللہ نے ابن حجر رحمہ اللہ کی بات نقل کرنے کے بعد کہا: “ابن حجر رحمہ اللہ نے اہلِ ضلال کا رد کرتے ہوئے کہا(وَلَئِنْ سَأَلَنِي وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي) اس سے رد یوں ہوگا کہ اسکا مطلب ہے کہ سائل اور مسئول دو الگ الگ ہیں ایسے ہی طالبِ پناہ اور پناہ دینے والا دونوں علیحدہ ہیں”
لگتا ہے انہوں حدیث پر اچھی طرح غور نہیں کیا؛ اگر اچھی طرح غور کیا ہوتا تو صرف سوال یا پناہ ہی کا تذکرہ نہ کرتے کیونکہ مکمل حدیث ہی انکے رد میں ہے، اس لئے کہ (من عادى لي وليا) کے الفاظ ان کا رد کر رہے ہیں اس لئے کہ ان الفاظ کا تقاضا ہے کہ دشمن ، جس سے دشمنی رکھی جائے، اور جس بنا پر دشمنی کی جائے ان تینوں چیزوں کے وجود کا تقاضا کرتے ہیں، اسی طرح دوستی کرنیوالے ، جس سے دوستی کی جائے، دونوں کا تقاضا کرتے ہیں، ایسے ہی اعلانِ جنگ کرنے والے اور جس کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے انکے علیحدہ وجود کا تقاضاکرتے ہیں، جنگ کرنے والے اور جن کے خلاف جنگ ہو دونوں کے مختلف ہونے کا تقاضا کرتے ہیں، قریب ہونے والے اور جسکے قریب ہوا جائے، بندہ اور معبود ، مُحِب اور محبوب وغیرہ تمام کے درمیان فرق کا تقاضا کرتے ہیں۔
چنانچہ یہ پوری حدیث وحدت الوجود کے قائلین پر رد ہے جنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے، بلکہ حدیثِ قدسی کے اس حصہ میں اور واضح انداز میں کہا: (وَمَا ترددت عَن شَيْء أَنا فَاعله ترددي عَن نفس الْمُؤمن) “کہ مجھے کسی چیز کے بارے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مؤمن کے بارے میں ہوتا ہے” اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک متردد ذات جو کہ مؤمن کی روح کو قبض کرنے والی ہے اور دوسری جس کے بارے میں تردد پایا جا رہا ہےاور وہ مؤمن ہے، ایک فاعل ہے اوردوسری مفعول ، ایک موت نہیں چاہتی وہ مؤمن ہے، اور ایک جسے مؤمن کو تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا اور وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: عقیدہ وحدت الوجودہر عقل اسکے باطل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے، اسکے لئے دلائل ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں، اور ان کے اس عقیدے کی بنیاد دو الٰہوں کو ماننے پر ہے، ایک الٰہ ِخیر اور دوسرا الٰہ ِ شر: الٰہِ خیر کو نور اور الٰہِ شر کو اندھیرے سے تعبیر کرتے ہیں، اور انہی دونوں کو تمام موجودات کی اصل قرار دیتے ہیں، چنانچہ اگر نور غالب ہو تو بندہ نُورانی اور اگر ظلمت چھا جائے تو بندہ ظُلمانی بن جاتا ہے۔
انہیں اس بات کا خیال نہیں آیا کہ انکا کفریہ نظریہ ابتداء ہی میں ان کی تردید کر رہا ہے کہ ظلمت، غیرِ نورہے، اور جس پر یہ نور طاری ہوا ہے وہ کوئی اور ہے۔ “قطر الولی علی حدیث الولی ” از امام شوکانی (419-421)
حدیث کے متن اور اسکے معنی کو مزید سمجھنے کیلئے سوال نمبر ( 21371 ) اور ( 14397 )کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم .