الحمد للہ.
اول:
اچھا اخلاق سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی خوبی اور صدیقین کا افضل ترین عمل ہے، اور اگر اچھا اخلاق حاصل کر لیا جائے تو یہ دین کا بڑا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ متقی لوگوں کے مجاہدہ نفس اور عبادت گزاروں کی ریاضت کا نتیجہ ہے، جبکہ بد اخلاقی زہرِ قاتل اور رسوا کن ذلت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔) اسے بخاری نے “الأدب المفرد” (273) میں روایت کیا ہے، اور البانی نے سلسلہ صحیحہ: (45) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں کو جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (تقوی الہی اور حسنِ اخلاق) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ : (2004) نے روایت کیا اور اسے صحیح غریب قرار دیا، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح ترمذی “میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی لیے روحانی امراض کے قوانینِ علاج کو مدون کرنے کا اہتمام کرنا، اور حسن اخلاق حاصل کرنے کے طریقوں کو یکجا جمع کرنا اہم ترین واجب ٹھہرا، کیونکہ کوئی بھی دل روحانی امراض سے خالی نہیں ہو سکتا، اگر آپ دل کا علاج نہیں کریں گے تو بیماریاں بڑھتی چلی جائیں گی، اور ہر شخص میں اخلاق ضرور پایا جاتا ہے، اگر آپ اسے مطلق العنان چھوڑ دیں گے تو یہی انسانی نفس اسے دنیا و آخرت میں تباہی کی طرف لے جائے گا۔
اس قسم کے علاج معالجے کے لیے بیماریوں اور بیماریوں کے اسباب کی تشخیص زیرک شخص کا کام ہے، اور تشخیص ہونے کے فوری بعد علاج اور تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں تبھی فلاح اور کامرانی مل سکتی ہے، اسی کی طرف فرمان باری تعالی میں اشارہ ہے کہ: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ترجمہ: تزکیہ نفس کرنے والا شخص کامیاب ہو گیا۔ [الشمس: 9] ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی حسن اخلاق کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور فرماتے: الَّلهُمَّ حَسَّنتَ خَلْقِي فَحَسِّن خُلُقِي یا اللہ! تو نے میری تخلیق اچھی بنائی، اب تو میرا اخلاق بھی اچھا بنا دے۔) اس حدیث کو ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان: (3/239) میں روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے “إرواء الغليل” (75) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
اگر بندہ اپنے عیوب جان لے تو تبھی ان کا علاج کر سکتا ہے، لیکن بہت سے لوگ اپنے عیوب سے تو غافل ہوتے ہیں ۔ اور دوسرے کی آنکھ میں تنکے کو تو دیکھ لیتے ہیں لیکن اسے خود اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا! لہذا اگر کوئی شخص اپنی خامیاں دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے چار طریقے ہیں:
پہلا طریقہ: انسان کسی بصیرت والے ایسے بزرگ کے پاس بیٹھے جو انسانی نفس کی خرابیوں سے بھر پور واقف ہو، جسے پوشیدہ بیماریوں کا علم ہو، ایسے ماہر اور تجربہ کار شخص سے علم، تربیت اور رہنمائی سب کچھ بیک وقت حاصل کرے۔
دوسرا طریقہ: اپنا کوئی دیندار سَچا اور سُچا دوست تلاش کرے ، اور اسے اپنے بارے میں نگرانی کا مکمل اختیار دے کہ دوست آپ کے کردار اور افعال کو پرکھے، اسے جن اخلاقیات، افعال، اور ظاہری و باطنی عیوب نظر آئیں ان پر تنبیہ کرے، عقل مند ، زیرک اکابر ائمہ دین ایسے ہی کیا کرتے تھے، اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ: “اللہ تعالی اس شخص پر خاص رحم فرمائے جو مجھے میرے عیوب بتلائے”
تیسرا طریقہ: اپنے دشمنوں کی زبانوں سے فائدہ اٹھائے کہ بسا اوقات دشمن بھی انسان کے عیوب کو واضح کرتے ہیں؛ کیونکہ جو شخص آپ سے ناراض ہو گا وہ آپ کے عیوب ہی عیاں کرے گا۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بسا اوقات انسان کو کینہ پرور دشمن سے جتنا فائدہ ہوتا ہے وہ چشم پوشی کرنے والے دوست سے نہیں ہوتا؛ کیونکہ دشمن بے باک انداز میں عیوب بتلا دیتا ہے، جبکہ دوست صرف اچھائیوں کی تعریف کرتا ہے اور عیوب کو چھپاتا ہے۔
چوتھا طریقہ: لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہے، چنانچہ اسے لوگوں میں جو چیز بھی قابل مذمت نظر آئے تو اپنے آپ کو ایسی منفی حرکتوں سے دور رکھے؛ اس لیے کہ مومن ؛ مومن کے لیے آئینہ ہے۔ تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مومن جو چیز دوسروں کے لیے عیب شمار کرے تو اپنے لیے بھی اسے عیب ہی سمجھے۔ سیدنا عیسی علیہ السلام سے کہا گیا: آپ کو اتنا مؤدب رہنا کس نے سکھایا؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا، میں جاہل کی جہالت دیکھتا جو مجھے اچھی نہیں لگتی تھی، میں نے اسی جہالت سے بچنا شروع کر دیا۔
سوم:
انسان کی نفسیاتی کیفیت اور اندرونی صورت کا نام اخلاق ہے۔ تو جس طرح ظاہری شکل کا حسن ناک، منہ اور رخسار کی بجائے صرف آنکھوں کے خوبصورت ہونے سے مکمل نہیں ہو سکتا بلکہ مذکورہ تمام اعضا کا خوبصورت ہونا لازم ہے تبھی جا کر ظاہری حسن مکمل ہو گا، اسی طرح انسان کا باطن بھی چار چیزوں کے خوبصورت ہونے سے ہی خوبصورت بنے گا، اور تبھی جا کر انسان کا اخلاق بھی اچھا ہو گا، چنانچہ جب یہ چاروں چیزیں مکمل ہوں، ان کا تناسب درست ہو، اور اعتدال کی کیفیت میں ہوں تو انسان اچھے اخلاق کا مالک بن جاتا ہے، یہ چار چیزیں درج ذیل ہیں:
قوتِ علم، قوتِ غضب، قوتِ شہوت، اور ان تینوں کے درمیان تناسب قائم رکھنے کے لیے قوتِ عدل ۔
قوت علم: اس وقت خوبصورت ہو گی جب انسان کے لیے اپنے علم کی بنیاد پر سچی اور جھوٹی بات میں تفریق کرنا آسان ہو، حق اور باطل نظریات میں فرق کر سکتے، اچھے اور برے افعال میں امتیاز رکھ سکے۔ جب انسان کے پاس اس درجے کا حسین علم موجود ہو تو انسان حکمت کا پھل پاتا ہے، اور حکمت ہی اچھے اخلاق کا سر چشمہ ہے۔
قوتِ غضب: اس قوت کی خوبصورتی یہ ہے کہ انسان کو غصہ آئے اور انسان غصہ پی جائے ۔ اور یہ حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔
قوتِ شہوت: اس قوت کی خوبصورتی یہ ہے کہ حکمت کے اشاروں پر چلے، یہاں عقل و شریعت کا اشارہ مراد ہے۔
جبکہ قوتِ عدل: یہ ہے کہ انسان شہوت اور غضبناکی دونوں کو عقل و شریعت کی روشنی میں کنٹرول کرے۔
اس سارے عمل میں عقل کی مثال : مشیر اور ناصح کی سی ہے، جبکہ قوت عدل عقل کے اس مشورے اور نصیحت کو نافذ کرنے والی طاقت ہے ، اور غضب وہ حالت ہے جس میں یہ مشورہ اور نصیحت نافذ کی جاتی ہے۔
جس شخص میں یہ ساری خصلتیں پوری ہو جائیں اور ان کا توازن بھی درست ہو تو یہی علی الاطلاق حسن اخلاق ہے، اسی سے ہی دیگر تمام حسن اخلاق پر مشتمل سرگرمیاں رونما ہوتی ہیں۔
ان چاروں چیزوں کی معراج تک صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی پہنچے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد لوگوں کے درجات اس حوالے سے الگ الگ ہیں، تو جو شخص بھی اس اخلاق کے قریب ہو گا وہی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تر ہو گا۔
چہارم:
ان چاروں چیزوں میں توازن اور اعتدال دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے:
پہلا ذریعہ: اللہ تعالی کی عطا اور فطری خوبیوں کی بدولت۔
دوسرا ذریعہ: مجاہدۂ نفس اور ریاضت کے ذریعے، یہاں مجاہدہ اور ریاضت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اچھے اخلاق کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (علم ، سیکھنے سے آتا ہے۔ اور حلم بردباری اپنانے سے۔ خیر کے متلاشی کو خیر عطا کر دی جاتی ہے، اور شر سے بچنے والے کو شر سے بچا لیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو خطیب بغدادیؒ اور دیگر نے سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے اندر سخاوت پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر سخی لوگوں جیسے کام کرے ، اور لوگوں میں اپنا مال خرچ کرے۔ تو جب انسان اپنے آپ کو اس کام پر لگا لے گا، اور اپنے نفس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی عادت بنا لے گا تو سخاوت اس کے مزاج میں شامل ہو جائے گی، پھر اس کے لیے اپنا مال خرچ کرنا آسان ہو جائے گا، اور انسان سخی بن جائے گا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے اندر تواضع پیدا کرنا چاہتا ہے، لیکن دل میں تکبر ہے، تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ لمبے عرصے تک متواضع لوگوں والے کام کرے، اپنے نفس کا مقابلہ کرے، اور اپنے آپ کو تواضع اپنانے پر مجبور کرے، آخر کار تواضع اس شخص کے مزاج میں شامل ہو جائے گا۔
جتنی بھی حسن اخلاق سے تعلق رکھنے والی خوبیاں ہیں سب کی سب اسی انداز سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ نیز انسانی نفس میں کوئی بھی دینی اخلاق اپنی جڑیں اس وقت تک مضبوط نہیں کر پاتا جب تک انسان تمام اچھی عادات کو اپنا نہیں لیتا، اور تمام برے افعال سے پہلو تہی اختیار نہیں کرتا، جب تک انسان اچھے کاموں کو کرتے ہوئے لذت محسوس نہیں کرتا، اور برے کاموں سے دور نہیں رہتا اور اگر برا کام سر زد ہو جائے تو دل میں درد محسوس نہیں کرتا۔
اس بات کو مثال سے سمجھیں:
ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی لکھائی اور کتابت بہترین ہو جائے ، اس شخص کی دلی خواہش طبعی طور پر تبھی پوری ہو گی جب ہاتھ سے وہی کام کرے جو بہترین اور ماہر لکھاری کرتا ہے، عرصہ دراز تک لکھنے کی مشق کرنے سے انسان کا خط اور لکھائی خوبصورت بن جاتی ہے، اس سارے دورانیے میں انسان اپنے آپ کو تکلف میں ڈالتا ہے اور کاتب جیسے کام کرنے میں مصروف رہتا ہے، مشق کرتے کرتے انسان اس درجے تک پہنچ جاتا ہے کہ آخر کار اس کا اپنا خط اور لکھائی بھی طبعی طور پر اچھی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس میں فقاہت پیدا ہو جائے، تو اس شخص کو چاہیے کہ فقہائے کرام والے کام کرے، چنانچہ فقہی مسائل کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا لے، ایک وقت آئے گا کہ وہ بھی فقیہ بن جائے گا۔
اسی طرح کوئی شخص سخی ، عفت والا، بردبار، اور متواضع بننا چاہتا ہے تو وہ بھی اپنے آپ کو ان جیسے لوگوں کے کام کرنے پر مجبور کرے تا آں کہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جائے، ان خوبیوں کو پانے کا یہی طریقہ ہے۔
پھر جس طرح فقاہت کا متلاشی شخص ایک رات کسی اور چیز میں مصروف ہونے سے یہ نہیں سمجھتا کہ وہ اس درجے تک پہنچ نہیں پائے گا، اور دوسری طرف یہ بھی نہیں سمجھتا کہ ایک ہی رات کی محنت سے فقیہ بن جائے گا۔ تو بالکل اسی طرح تزکیہ نفس ، تکمیل روح ، اور نیکیوں کے ذریعے تزیین نفس کے لیے کوشاں شخص بھی ایک دن کی عبادت سے اس درجے کو نہیں پا سکتا ، اور نہ ہی ایک دن کی نافرمانی سے محروم ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک دن بے مقصد گزر جانے کی وجہ سے انسان دوسرا دن بھی بے مقصد گزارنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ انسان سستی اور کوتاہی کا شکار ہو جاتا ہے۔
پنجم:
برے اخلاق اور گندی عادات میں ملوث انسانی جان کے علاج کے لیے ، اور انسانی جان کو اچھے اخلاق اور اچھی عادات پر لانے کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے جو جسمانی بیماریوں سے علاج کے لیے کرنا پڑتا ہے۔
اور جس طرح انسانی جسم میں طبی طور پر اعتدال اصل ہے، لیکن انسانی معدے کو غیر صحت بخش غذائیں، ہوائیں اور ماحول کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے اور انسان بیمار ہو جاتا ہے، اسی طرح ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی سلیم الفطرت ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بری عادت اپنانے سے اور سیکھنے سے انسان میں بری صفات پیدا ہوتی ہیں۔
جس طرح بدن جسمانی طور پر مکمل پیدا نہیں ہوتا، بلکہ غذا کھانے سے انسان میں قوت پیدا ہوتی ہے، اسی طرح انسان نفسیاتی طور پر بھی ابتدا میں ناقص ہوتا ہے، اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے، انسان عروج تک تربیت اور تہذیب اخلاق اور علم کی غذا کے ذریعے پہنچتا ہے۔
جس طرح انسانی بدن صحیح سلامت ہو تو ماہر معالج کا کام یہ ہوتا ہے کہ انسانی صحت کو تحفظ دینے کی منصوبہ بندی کرے، اور اگر انسان بیمار ہو تو اسے صحت مند بنانے کے لیے علاج کرے۔ بالکل اسی طرح انسانی نفس کا معاملہ ہے کہ اگر انسانی نفس پاکیزہ، طاہر اور مہذب ہے تو انسان کو ان خوبیوں کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہیے، اور ان خوبیوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کرے، اور اگر انسانی نفس میں کوئی کمی ہے تو پھر اس کمی کو دور کر کے اسے کمال کے درجات تک پہنچائے۔
جس طرح انسانی جسم کے توازن کو بگاڑنے والی بیماری جس سے انسانی جسم بیماری کا شکار ہو گیا ہے اس کا علاج متضاد چیز سے ہوتا ہے، یعنی: اگر جسم میں حرارت بڑھ رہی ہے تو اس کا علاج ٹھنڈک سے کیا جائے، اور اگر ٹھنڈ کا عارضہ لاحق ہے تو حرارت سے علاج کیا جائے۔ اسی طرح روح کی بیماری کا معاملہ ہے کہ جب روح بیمار ہو تو اس بیماری کے متضاد عمل سے علاج کیا جائے، چنانچہ جہالت کا علاج علم سے، بخیلی کا علاج سخاوت سے، تکبر کا علاج تواضع سے، اور شہوت انگیزی کا علاج اپنے آپ کو شہوت انگیز چیزوں سے بچا کر کیا جائے۔
جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج میں کڑوی کسیلی ادویات نا چاہتے ہوئے بھی کھانی پڑتی ہیں ، اسی طرح قلبی امراض کے علاج کی وجہ سے انسان کو مجاہدۂ نفس، اور صبر کرنا پڑتا ہے، بلکہ روح کے علاج میں انسان کو زیادہ صبر کرنا چاہیے؛ کیونکہ جسمانی بیماری تو انسان کو زیادہ سے زیادہ موت کے گھاٹ اتار دے گی، لیکن قلبی بیماری -اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے- موت کے بعد بھی جاری و ساری رہے گی جس کے ابدی اور سرمدی نتائج بھگتنے ہوں گے۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے آپ کو قلبی بیماریوں کے علاج کا طریقہ معلوم ہو گیا ہو گا، آخر میں ہم آپ کو ایک قاعدہ کلیہ بتلاتے ہیں کہ: آپ کے دل میں جو بات بھی ہوس کی شکل میں آئے آپ نے اس کے الٹ ہی چلنا ہے، اللہ تعالی نے یہ بات قرآن کریم کے ایک جملے میں سمو دی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى . فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى ترجمہ: اور جو شخص بھی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور اس نے اپنے آپ کو ہوس سے روکا تو جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔ [النازعات: 40 – 41]
مجاہدۂ نفس کے لیے نہایت ہی اہم اصول یہ ہے کہ: انسان اپنے عزم کو پورا کرے، چنانچہ اگر کسی نے عزم کیا کہ شہوت ترک کرنی ہے تو وہ اس پر تسلسل کے ساتھ ڈٹا رہے۔ کیونکہ اگر اس نے اپنی عادت عزم توڑنے والی بنا لی تو پھر کہیں بھی کامیابی نہیں ملے گی۔ اور اگر کہیں ایسا ہو کہ انسان اپنے عزم کو توڑ ڈالے تو اپنے آپ پر کوئی سزا تجویز کرے؛ کیونکہ انسان اگر اپنے آپ کو کسی سزا کی دھمکی نہ دے تو انسانی نفس انسان پر غالب آ جاتا ہے، اور انسان کو شہوت پر مبنی امور سر انجام دینا اچھا لگتا ہے، جس کے نتیجے میں ساری کی ساری ریاضت تباہ ہو جاتی ہے۔
مندرجہ بالا مباحث علامہ غزالی رحمہ اللہ کی کتاب “إحياء علوم الدين” (3/62-98) سے ماخوذ ہیں، اور ان میں حک و اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم