جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

كيا داود عليہ السلام بانسرى استعمال كرتے تھے ؟

101172

تاریخ اشاعت : 05-11-2007

مشاہدات : 11055

سوال

ميں گانے كا حكم پوچھنا چاہتا ہوں، ميں تو يہ كہتا ہوں كہ چڑيا كے چہچانے كى آواز ميں موسيقى ہے، اور آبشار سے گرنے والے پانى كى آواز ميں بھى موسيقى ہے، اور بارش اور تيز ہوا كى آواز ميں بھى موسيقى ہے تو يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ہم موسيقى نہ سنيں، اور پھر اللہ كے نبى داود عليہ السلام گانے بجانے كے آلات كے ساتھ استغفار كرتے تھے، ميں شہوت انگيز اور گندى قسم كى كلام پر مشتمل گانوں كى بات نہيں كرتا، بلكہ ميں تو اس موسيقى كے متعلق بات كر رہا ہوں جو پرسكون ہے، اور عام قسم كى كلام ہو، آپ سے گزارش ہے كہ پورى وضاحت كے ساتھ جواب ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

موسيقى سننے كى حرمت اور اس كے دلائل سوال نمبر ( 5000 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، اور اسى طرح چڑيا كے چہچانے، يا پانى كے بہنے كى آواز پر موسيقى كو قياس كرنے كا باطل ہونا سوال نمبر ( 96219 ) كے جواب ميں تفصيل سے بيان كيا گيا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

اور يہ كہنا كہ: داود عليہ السلام گانے بجانے كے آلات كے ساتھ استغفار كيا كرتے تھے، اس كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:

" تجھے آل داود كى سر ميں سے سريلى آواز دى گئى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5048 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 793 ).

اس سے مراد تو بہتر اور اچھى آواز ہے، تو اس كى اچھى آواز بانسرى كى آواز سے مشابہ ہوئى.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم وسلم كا ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمانا:

" تجھے آل داود كى سريلى آواز سے آواز دى گئى ہے "

علماء رحمہم اللہ كہتے ہيں:

يہاں مزمار سے مراد سريلى اور اچھى آواز ہے، اور زمر اصل ميں سر لگانے اور گانے كو كہتے ہيں، اور آل داود سے مراد داود عليہ السلام خود ہيں، بعض اوقات آل فلان كا اطلاق خود اس كے اپنے نفس پر ہوتا ہے، داود عليہ السلام كو اللہ تعالى نے بہت ہى اچھى آواد دے ركھى تھى " انتہى.

اور عراقى كا كہنا ہے:

يہاں مزمار سے مراد اچھى آواز ہے، اور اس كا اصل وہ آلہ ہے جس سے سر لگا كر گايا جاتا ہے، ان كى اچھى اور بہتر اور ميٹھى آواز كو مزمار كى آواز سے تشبيہ دى ہے... قرآت ميں ان سے بہتر كوئى بھى اچھى آواز ميں نہيں پڑھ سكتا تھا " انتہى.

ديكھيں: طرح التثريب ( 3 / 105 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں لكھتے ہيں:

" مزمار سے مراد حسن صوت يعنى اچھى آواز ہے، اور اصل ميں يہ آلہ ہوتا ہے، اچھى آواز ميں مشابہت كى بنا پر اس پر اس نام كا اطلاق ہوا ہے " انتہى.

اور يہ بالكل ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے قول كى طرح ہى ہے كہ انہوں نے بھى جب مزمار شيطان كا لفظ بولا تھا، جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں آيا ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے روز ان كے والد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے پاس آئے تو اس وقت ان كے پاس دو انصارى بچياں بعاث كى لڑائى كے متعلق كہے گئے اشعار گا رہى تھيں، تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: مزمار شيطان يہ الفاظ انہوں نے دو بار كہے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے:

ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو، يقينا ہر قوم كى كوئى عيد ہے، اور يہ دن ہمارے ليے عيد كا روز ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3931 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 892 ).

حالانكہ ان دونوں بچيوں كے پاس كوئى بانسرى يا گانے بجانے والا آلہ نہ تھا، ليكن اس كے باوجود ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس گانے كو مزمار الشيطان كا نام ديا، اور قبيح ہونے ميں اسے مزمار الشيطان سے تشبيہ دى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب