اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

جينز اور عورتوں كا شارٹ اور مختصر لباس تيار كرنے والى فيكٹرى ميں كام كرنے كا حكم

102936

تاریخ اشاعت : 15-03-2008

مشاہدات : 6462

سوال

ميں ريڈى ميڈ گارمنٹس تيار كرنے والى كمپنى ميں ملازم ہوں، كمپنى لڈيز كے ليے جينز كى پينٹيں تيار كرتى ہے، ليكن ہم يہ كپڑے دوسرے ملك برآمد كرتے ہيں، اور ممكن ہے مصر كے اندر ميں فروخت ہوتے ہوں، ليكن ملك كے اندر فروخت كرنا اساسى كام نہيں، عورتوں كے ليے جينز كى پينٹ اور شرٹ تيار كرنے كے علاوہ بچوں كے كپڑے بھى تيار كيے جاتے ہيں، ليكن فيكٹرى ميں زيادہ تر جينز كى پينٹ، اور آرڈر كے مطابق ليڈيز كپڑا تيار ہوتا ہے، اور بعض اوقات كچھ كپڑا جينٹس كے ليے بھى تيار كيا جاتا ہے، تو كيا يہ كام حلال شمار ہو گا يا حرام ؟
اور كيا ميں اسے چھوڑ دوں ـ يہ علم ميں رہے كہ ميں آفس ميں برآمد كرنے والوں كے معاملات كى چھان بين كرتا ہوں، اور آرڈر وصول كرنا، اور لباس كى مواصفات لے كر ملازمين كو ديتا ہوں ـ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

معاشرے فحاشى اور برائى جيسى مشكلات سے دوچار ہيں، اور ان معاشروں ميں ظاہر برائيوں ميں سے شريعت مخالف عورتوں كا لباس بھى ہے، چاہے يہ لباس تنگ ہو اور جسم كے اعضاء كو واضح كرتا ہو، يا پھر چھوٹا ہونے كى بنا پر جسم كے كچھ اعضاء ننگے ہوتے ہوں، جس سے شہوت انگيزى ہوتى ہو، يا پھر اتنا باريك لباس كہ نيچے سے جسم وغيرہ كى رنگت نظر آتى ہو.

اس طرح كے لباس پہننا حرام ہيں، اس كے گناہ كا تعلق صرف پہننے سے ہى متعلق نہيں، بلكہ جس نے ان عورتوں كو يہ لباس فروخت كيا ہے وہ بھى اس گناہ ميں برابر كے شريك ہيں، اور اس سے بھى قبل جس نے يہ لباس خريد كر ماركيٹ ميں دوكانداروں كو فروخت كيا ہے وہ بھى شامل ہے، اور اس سے بھى پہلے فيكٹرى ميں تيار كرنے والا بھى جس نے ان خريداروں كے ليے يہ پروڈكٹ كيا ہے.

اور پھر بلا كسى خدشہ كے اس كے گناہ ميں وہ بھى شامل ہے جس نے ان فيكٹريوں كى اس طرح كا لباس تيار كرنے كى اجازت اور لائسنس ديا ہے، اور جو اس طرح كا لباس تيار كرنے والى فيكٹريوں كے موجود ہونے پر راضى و خوش ہے، اور اس كى حفاظت ميں معاونت كى ہے، يہ سب لوگ اس لڑكى يا عورت كے جسم پر اس برائى كے وجود كے ذمہ دار ہيں، اور ان سب كو اللہ تعالى كے ہاں اپنے عمل اور فعل كے مطابق شريعت كى مخالفت اور جرم كى سزا دى جائيگى.

اگر فيكٹريوں كو اس طرح كا لبا اور كام كرنے كى اجازت اور لائسنس نہ ديا گيا ہوتا تو نہ تو يہ اشياء تيار كى جاتى اور نہ ہى ملازمين ان اشياء كو تيار كرتے، اور اگر تاجر حضرات اس لباس كو فروخت نہ كرتے تو يہ بےپردہ عورت كوئى جگہ اور دوكان نہ پاتى، جہاں سے وہ يہ حرام لباس خريد سكتى، تو اس طرح يہ سب اس برائى اور بے پردگى اور فحاشى كو پھيلانے كے ذمہ دار ہيں، اور اس كے نتيجہ جو بھى گناہ اور حرام نظر اٹھے گى، اور جو غلط اور حرام قسم كے تعلقات قائم ہونگے، اور اس كے نتيجہ ميں دل، اور اخلاق اور دين ميں خرابى پيدا ہو گى اس كے يہ سب ذمہ دار ہيں، اور گناہ ميں برابر كے شريك ہيں.

دوم:

ايسا تنگ اور چھوٹا لباس تيار كرنا اور اسے كافر يا مسلمانوں كو فروخت كرنے ميں كوئى فرق نہيں، كيونكہ كفار بھى شرعى احكام كے مخاطب ہيں، اور يہ احكام ان پر بھى لاگو ہوتے ہيں، اور يہ لباس فساد اور برائياں پھيلاتا ہے، اگرچہ ايسا لباس مسلمان عورت كو فروخت كرنا تو اور بھى زيادہ گناہ كا باعث ہے.

مستق فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

آپ سے گزارش ہے كہ ہميں ہر قسم كى تنگ ليڈيز پينٹوں جسے جينز اور اسٹرٹش كہا جاتا ہے فروخت كرنے كا حكم بتائيں، اور يہ بھى بيان كريں كہ پينٹ اور بلاؤزر پر مشتمل لباس كا سيٹ فروخت كرنا كيسا ہے ؟

اور اونچى ايڑيوں والے جوتے، اور مختلف قسم كے ہير كلر خاص كر عورتوں كے ليے رنگ، اور باريك ليڈيز كپڑے جسے شيفون كا نام ديا جاتا ہے، اور آدھى آستين اور بازو والے اور چھوٹے لباس، اور عورتوں كے ليے مختلف قسم چھوٹے تنورے ( گرارے ) فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

ہر وہ چيز جو حرام طريقہ پر استعمال كى جائے، يا ظن غالب ہو كہ يہ حرام استعمال ہو گى تو اس چيز كو تيار كرنا، اور برآمد و درآمد اور فروخت كرنا، اور مسلمانوں كے درميان اس كى ترويج كرنا حرام ہے، اس ميں يہ بھى شامل ہوتا ہے جو آج كى بہت سارى عورتيں ـ اللہ انہيں سيدھے راہ كى ہدايت نصيب فرمائے ـ كر رہى ہيں، كہ وہ تنگ اور باريك اور چھوٹا لباس زيب تن كر نے لگى ہيں، اور يہ لباس وہ سب كچھ ظاہر كرتا ہے يعنى: جسم كے پرفتن اعضاء، اور زينت و خوبصورتى اور عورت كے مردوں كے سامنے اعضاء واضح كرتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ لباس جس كے متعلق ظن غالب يہ ہو كہ اس لباس كو پہن كر معصيت و نافرمانى ميں معاونت ہو گى، تو اسے فروخت كرنا جائز نہيں، اور اس لباس سے معصيت و ظلم ميں معاونت لينے والے كے ليے لباس سى كر دينا بھى جائز نہيں، اور اسى ليے جس شخص كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ روٹى اور گوشت كے ساتھ شراب نوشى بھى كريگا تو اس شخص كو روٹى اور گوشت فروخت كرنا جائز نہيں.

اور اسى طرح جس كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ رياحين ( نياز بو ) كے ساتھ شراب نوشى اور فحاشى كے ليے بطور معاون استعمال كريگا، تو اسے يہ فروخت كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح اصل ميں جو چيز مباح ہو اور اس كے متعلق علم ہو جائے كہ اسے معصيت و نافرمانى استعمال كيا جائيگا، اور مدد لى جائيگى تو يہ بھى جائز نہيں.

اس ليے ہر مسلمان تاجر پر واجب ہے كہ: وہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے، اور اپنے مسلمان بھائيوں كے ليے خير خواہى كرے، تو اسے چاہيے كہ وہ ايسى چيز نہ تو تيار كرے، اور نہ ہى فروخت كرے، بلكہ اسے وہ چيز فروخت كرنى چاہيے جس ميں مسسلمانوں كا فائدہ ہو اور ان كے ليے بہتر بھى ہو، اور اسے ہر وہ چيز ترك كر دينى چاہيے جس ميں مسلمانوں كا نقصان و ضرر ہو، اور حلال ميں حرام چيز سے غناء پائى جاتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے ككى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم اور گمان بھى نہيں ہوتا الطلاق ( 2 - 3 ).

اور ايمان كا تقاضا بھى يہى ہے كہ يہ خير خواہى كى جائے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور مومن مرد اور مومن عورعورتيں ايك دوسرے كے ولى اور دوست ہيں، وہ نيكى كا حكم ديتے ہيں، اور برائى سے منع كرتے ہيں التوبۃ ( 71 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" دين خير خواہى ہے: عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كس كے ليے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كے ليے، اور اس كى كتاب كے ليے، اور اس كے رسول كے ليے، اور مسلمان حكمرانوں كے ليے، اور عام مسلمانون كے ليے "

اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اور جرير بن عبد اللہ البجلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز پابندى كے ساتھ ادا كرنے، اور زكاۃ كى ادائيگى، اور ہر مسلمان كے ليے خير خواہى پر بيعت كى "

متفق عليہ.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كے مندرجہ بالا قول: ... اسى ليے روٹى اور گوشت ايسے شخص كے ليے فروخت كرنا مكروہ ہے جس كے متعلق يہ علم ہو جائے كہ وہ اس كے ساتھ شراب نوشى بھى كريگا.... الخ "

سے مراد كراہت تحريمى ہے، جيسا شيخ الاسلام كے فتاوى سے معلوم ہوتا ہے، جو دوسرے مقام پر موجود ہيں. انتہى.

الشيخ عبد العزيز بن باز

الشيخ عبد العزيز آل شيخ

الشيخ صالح الفوزان

الشيخ بكر ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 109 - 111 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 5066 ) اور ( 10436 ) كے جوابات كا بھى مطالعہ كريں.

اور آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اس كام اور ملازمت سے حاصل ہونے والا مال حرام ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا بلا شبہ جب اللہ تعالى كوئى چيز حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3488 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے آپ اس كام اور ملازمت سے خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر ليں، اور كوئى اچھا اور حلال كام كر كے اپنى كمائى كو اچھا اور حلال بنائيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كى توفيق عطا فرمائے، اور آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كے ليے اپنے خزانوں كو كھول دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب