الحمد للہ.
اگر آپ اپنے والد محترم کے ساتھ ان کی وفات کے بعد خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں تو آپ درج ذیل کام کر کے انہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں:
1- والد کے لیے سچے دل کے ساتھ دعا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ . رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ
ترجمہ: میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی ، ہمارے پروردگار! اور ہماری دعا بھی قبول فرما، ہمارے پروردگار! مجھے اور میرے والدین اور تمام مومنوں کو قیامت کے دن مغفرت عطا فرما۔ [ إبراهيم:40-41]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ماسوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے) مسلم: (1631)
ایسے ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی ایک آدمی کا درجہ بلند فرما دیتا ہے ، تو وہ آدمی کہتا ہے: یہ درجے کی بلندی میرے لیے کہاں سے؟ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: تیری اولاد کی تیرے لیے دعا کی بدولت)
اس حدیث کو طبرانی نے کتاب الدعاء، صفحہ: 375 میں روایت کیا ہے اور ہیثمی نے مجمع الزوائد (10/234) میں اسے بزار کی جانب منسوب کیا ہے، اسی طرح بیہقی نے اسے سنن الکبری : (7/78) میں روایت کیا ہے۔
امام ذہبی اپنی کتاب المہذب: (5/2650) میں کہتے ہیں کہ: اس کی سند قوی ہے۔
اور ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں، ماسوائے عاصم بن بہدلہ کے وہ حسن الحدیث ہے۔
2- اپنے والد کی طرف سے صدقہ خیرات کریں۔
3- والد صاحب کی طرف سے حج اور عمرہ کریں، اور ان کا ثواب انہیں پہنچائیں، اس امور کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر پہلے سوال نمبر: (12652) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔
4- والد پر موجود قرضے کی ادائیگی کریں، جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے مطابق اپنے والد عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہما کے قرضے کے ساتھ کیا تھا، یہ واقعہ صحیح بخاری: (2781) میں موجود ہے۔
جبکہ رمضان کے روزے اور زکاۃ کی ادائیگی میں جو کچھ ان سے کمی کوتاہی ہوئی ہے وہ آپ کمی پوری نہیں کر سکتے، چنانچہ اگر کوئی مسلمان روزوں اور زکاۃ کے متعلق عمداً کوتاہی کرے تو وہ لازمی طور پر ان کا خمیازہ بھگتے گا، اور کوئی دوسرا شخص کسی کی طرف سے ان کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔
اور یہی حکم نماز کے بارے میں ہے کہ کوئی کسی کی نمازیں نہیں پڑھ سکتا ۔
اللہ تعالی نے مسلمان کے بارے میں بتلا دیا ہے کہ اسے اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اگر عمل اچھے ہوئے تو اچھائی ملے گی اور اگر عمل برے ہوئے تو بدلہ بھی برا ہی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ . وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
ترجمہ: پس جو شخص ذرہ برابر بھی خیر کا کام کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ [الزلزلہ:7-8]
لیکن اگر اللہ تعالی کسی کو اپنی رحمت سے معاف کرنا چاہے تو یہ اللہ تعالی کی مشیئت ہے۔
تاہم زکاۃ کا معاملہ قرضے جیسا ہے، تو زکاۃ کی رقم مستحقین کا حق ہے، تو آپ اپنے والد صاحب کی جانب سے غیر ادا شدہ زکاۃ کا اندازہ لگائیں اور ان کی طرف سے ادا کر دیں، ہمیں امید ہے کہ اس طرح ان پر قدرے نرمی ہو جائے گی۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو اپنے والد سے محبت کا بہترین صلہ اور جزا عطا فرمائے، اور انہیں معاف فرمائے۔
واللہ اعلم.