جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

فضائل رمضان ميں حديث سلمان ضعيف ہے

سوال

ہمارے علاقے ميں ايك خطيب نے مسجد ميں خطبہ ديتے ہوئے سلمان رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بيان كى جس ميں بيان كيا گيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں شعبان كے آخرى روز خطبہ ارشاد فرمايا.... الخ
ايك بھائى نے لوگوں كے سامنے امام پر اعتراض كيا كہ يہ حديث تو موضوع اور من گھڑت ہے، اور اسى طرح يہ بھى كہ: جس كسى نے روزے دار كو سير ہو كر كھانا كھلايا اللہ تعالى اسے ميرے حوض سے پانى پلائےگا جس كے بعد وہ كبھى پياس محسوس نہيں كريگا حتى كہ وہ جنت ميں داخل ہو جائے "
اور يہ حديث بھى كہ:
" جس كسى نے اپنى لونڈى پر تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش دےگا اور اسے جہنم سے آزاد كر ديتا ہے "
اس بھائى نے كہا كہ يہ سب كلمات رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ اور افترا ہيں، اور جس كسى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ اور افترا باندھا اس نے جہنم ميں ٹھكانہ بنايا ... الخ
كيا يہ احاديث صحيح ہيں يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن خزيمہ رحمہ اللہ نے حديث سلمان روايت كرتے ہوئے كہا ہے:

اگر يہ حديث صحيح ہو تو فضائل رمضان كے بارہ ميں باب .

پھر كہتے ہيں:

ہميں على بن حجر السعدى نے حديث بيان كى، وہ كہتے ہيں ہميں يوسف بن زياد نے بيان كيا، وہ كہتے ہيں ہميں ہمام بن يحي نے على بن زيد بن جدعان نے سعيد بن مسيب سے اور انہوں نے سلمان رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا وہ كہتے ہيں كہ ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شعبان كے آخرى دن خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:

" لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.

اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.

صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا، اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے "

جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے:

جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا.

اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا.

جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائيگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كريگا "

اس حديث كى سند ميں على بن زيد بن جدعان سوء حفظ كى وجہ سے ضعيف ہے، اور اس كى سند ميں يوسف بن زياد البصرى بھى منكر الحديث راوى ہے، اور پھر ہمام بن يحي بن دينار العودى كے بارہ ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا تقريب التہذيب ميں كہنا ہے كہ: يہ ثقہ ہے اور بعض اوقات اسے وہم ہو جاتا ہے.

اس بنا پر اس سند كے ساتھ يہ حديث مكذوب تو نہيں ليكن ضعيف ہوگى، ليكن اس كے باوجود دوسرى صحيح احاديث سے رمضان المبارك كے بہت فضائل ثابت ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب