الحمد للہ.
نماز استخارہ کی اہمیت تین باتوں سے واضح ہو سکتی ہے:
پہلی بات: یہ کہ نماز استخارہ میں انسان اپنی حاجتیں صرف اللہ تعالی کے سامنے رکھتا ہے، اور اللہ کے علاوہ ہر چیز سے اپنا تعلق اور ناتا توڑ دیتا ہے، نیز صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی پر توکل کرتے ہوئے تمام تر امور اسی کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ تمام امور عقیدہ توحید اور اسلام میں انتہائی اعلی مقام کے حامل ہیں ، نماز استخارہ یہ تمام مثبت چیزیں بندے میں پیدا کرنے اور ان خوبیوں میں پائداری کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے؛ خصوصاً ایسے شخص کے لیے جو نماز استخارہ پڑھنے کا عادی ہو اور اس نماز کی حقیقت ، حکمت اور شرعی مقام و مرتبے کا دل میں کامل شعور رکھتا ہو۔
دوسری بات: نماز استخارہ پڑھنے سے درست فیصلہ کرنے میں کامیابی ملتی ہے اور معاملہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، نیز آگے بڑھنے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مدد ملتی ہے؛ کیونکہ اپنے تمام تر معاملات اللہ تعالی کے سپرد کرنے والے کے لیے اللہ تعالی کافی ہو جاتا ہے، اللہ تعالی سے صدق دل سے مانگنے والے شخص کی ضرورت پوری فرماتا ہے ، اس کی دعا مسترد نہیں فرماتا۔
چنانچہ امام غزالیؒ "إحياء علوم الدين" (1/206) میں کہتے ہیں:
"بعض دانا لوگوں کا کہنا ہے کہ: جو شخص چار کام کرے تو اسے چار چیزیں ضرور ملتی ہیں: 1) شکر کرنے والے کو اور زیادہ ضرور ملتا ہے۔ 2) توبہ کرنے والے کی توبہ کو قبولیت ضرور ملتی ہے۔ 3) استخارہ کرنے والے شخص کو خیر ضرور عطا ہوتی ہے۔ 4) اور مشورہ کرنے والے کو درست سمت ضرور ملتی ہے۔" ختم شد
البتہ ایک مشہور حدیث کہ: (استخارہ کرنے والا کبھی نقصان نہیں اٹھاتا، اور مشورہ کرنے والا کبھی پشیمان نہیں ہوتا) تو یہ من گھڑت روایت ہے، اس کی تفصیلات جاننے کے لیے آپ علامہ البانیؒ کی کتاب: سلسلہ ضعیفہ: (611) کا مطالعہ کریں۔
تیسری بات: اللہ تعالی کے فیصلوں پر کامل رضا اور اظہار اطمینان ، اللہ تعالی کی دین پر مکمل قناعت بھی نماز استخارہ سے حاصل ہوتی ہے؛ کیونکہ استخارہ کرنے والا شخص کبھی بھی اپنے فیصلے پر نادم نہیں ہوتا، اس کے دل میں اتنا اطمینان اور یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے کسی فیصلے پر کسی بھی قسم کا دکھ اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی، یہ چیز نماز استخارہ کی وجہ سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا فائدہ ہے۔
جیسے کہ ابن ابی الدنیا اپنی کتاب: "الرضا عن الله بقضائه" صفحہ: (92) میں اور دیگر اہل علم نے بھی وہب بن منبہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ:
"جناب داود علیہ السلام کہتے ہیں: پروردگار! تیرے کون سے بندے تجھے سب سے زیادہ ناپسند ہیں؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: جس بندے نے مجھ سے استخارہ کرتے ہوئے خیر طلب کی، اور میں نے اس کے لیے خیر لکھ دی، لیکن وہ اس خیر پر راضی نہ ہو!" ختم شد
اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الوابل الصيب" (157) میں کہتے ہیں:
"شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہا کرتے تھے : استخارہ کر کے اپنے خالق سے خیر مانگنے والا اور مخلوق سے مشورہ کر کے اپنے عزم پر پختہ ہو جانے والا کبھی بھی ندامت نہیں اٹھاتا۔"
ان تمام حکمتوں اور فوائد کو علامہ ابن قیمؒ نے نماز استخارہ کی اہمیت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بڑے ہی خوبصورت پیرائے میں ذکر کیا ہے، چنانچہ آپ "زاد المعاد" (2/442) میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اہل ایمان کو دعائے استخارہ اس[دست شناسی، علم نجوم] کے عوض میں عطا کی۔ دعائے استخارہ کے ذریعے بارگاہ الہی میں اپنی عرضی رکھنے کا موقع ملتا ہے اور انسان اللہ تعالی کی بندگی بجا لاتا ہے، دعائے استخارہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور خالص اسی سے خیر کی دعا بھی ہے؛ کیونکہ ہر طرح کی خیر صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، ہر قسم کے فائدے اور بھلائی کا موجب وہی ہے، ہمہ قسم کی مشکل کشائی بھی وہی فرماتا ہے، وہی یکتا ذات ہے جو اپنے بندے کے لیے خیر کھول دے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اور جب وہ خیر کو روک دے تو کوئی بھی اسے جاری نہیں کروا سکتا چاہے انسان فال نکلوائے، یا نجومیوں کے پاس جائے یا تاروں کے ذریعے قسمت کا حال جاننے کی کوشش کرے، یا کوئی اور اسی طرح کی وہمی سرگرمی میں ملوث ہو۔ کیونکہ دعائے استخارہ ہی مومن کے لیے بابرکت تارا اور برج ہے، یہ دعا سعادت مند اور کامیاب لوگوں کی قسمت کا چمکتا ستارہ ہے، انہی لوگوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے اچھے فیصلے پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔ دعائے استخارہ سے مشرک، بد بخت، اور اللہ تعالی کے ساتھ شریک بنانے والے ذلیل لوگوں کے لیے کامیابی کا ستارہ نہیں ہے، انہیں اپنی ناکامی کا جلد ہی علم ہو جائے گا۔
دعائے استخارہ میں اللہ تعالی کے وجود کا اقرار ہے، اللہ تعالی کی صفات کاملہ میں سے کامل علم، قدرت، اور ارادے کا اقرار ہے، دعائے استخارہ میں اللہ تعالی کی ربوبیت، پورا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کرنا، اللہ تعالی سے ہی مدد طلبی، اسی پر کامل توکل، اور اپنی ناتوانی کا اقرار کرتے ہوئے ساری ذمہ داری اللہ تعالی پر ڈالنے کا اقرار ہے۔ دعائے استخارہ میں انسان کسی بھی اچھے فیصلے کی ہمت اور برے فیصلے سے دور کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالی کو دیتا ہے، اور خود اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں لاعلمی اور عدم قدرت کا اعتراف کرتا ہے، یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ انسان اپنا ذاتی مفاد چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا، انسان عملی طور پر اعتراف کرتا ہے کہ ہر چیز اسے پیدا کرنے والے اور سچے الہ یعنی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ مسند احمد میں ایک روایت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ابن آدم کی خوشحالی میں یہ شامل ہے کہ انسان اللہ تعالی سے استخارے کے ذریعے خیر طلب کرے اور پھر جو اللہ تعالی فیصلہ کر دے اس پر راضی ہو جائے، جبکہ ابن آدم کی بدبختی ہے کہ انسان اللہ تعالی سے استخارے کے ذریعے خیر نہ مانگے، اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار ناراضی کرے۔)
آپ غور کریں کہ تقدیر میں لکھا ہوا معاملہ دعائے استخارہ کی وجہ سے کس طرح سے توکل اور رضا کے درمیان رونما ہوتا ہے: یعنی دعائے استخارہ کا لب لباب: توکل ؛دعائے استخارہ کے نتائج رونما ہونے سے پہلے اور جب نتائج رونما ہو جائیں تو پھر ان پر کامل رضا مندی ہے، اور یہی دو چیزیں انسان کی خوش حالی کے لیے بنیادی ترین ارکان ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بد حالی یہ ہے کہ انسان کام کرنے سے قبل اللہ تعالی پر توکل چھوڑ دے اور استخارہ نہ کرے، اور پھر کام کے بعد اللہ تعالی کے فیصلوں پر راضی بھی نہ ہو۔
یعنی دعائے استخارہ کے نتائج رونما ہونے سے قبل توکل کی صورت میں قلبی عبادت ہوتی ہے اور جب نتائج رونما ہو جائیں گے تو یہ عبادت کامل رضا مندی سے بدل جاتی ہے، جیسے کہ مسند احمد میں ہے، نیز سنن نسائی کی ایک مشہور دعا میں ہے کہ وَأَسْأَلُكَ الرَّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے تیرے فیصلے کے بعد ان پر قلبی رضا مندی بھی مانگتا ہوں۔
مذکورہ دعا عمومی فیصلوں پر قلبی رضا مندی مانگنے سے زیادہ معنی خیز ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے ہونے سے پہلے تو دل بہت پر عزم ہو، لیکن جب فیصلہ سامنے آئے تو انسان ہمت ہار جائے اور اللہ تعالی کے فیصلے کو قبول نہ کرے، چنانچہ اگر قلبی رضا مندی انسان کو اللہ تعالی کے فیصلوں کے فوری بعد ملتی ہے تو یہ بر محل بھی ہو گی اور مفید بھی ہو گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ: استخارہ اللہ تعالی پر توکل اور اپنا معاملہ بارگاہ الہی میں سپرد کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی قدرت اور علم کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرنا ہے، اور اللہ تعالی کا بندے کے لیے حسن انتخاب بھی۔ چنانچہ اللہ تعالی کے ہر فیصلے کو اپنے لیے بہترین سمجھنا توحید ربوبیت کا ہی ایک نتیجہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جو شخص اس نظریے کا حامل نہ ہو تو اسے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے فیصلوں پر راضی ہو جاتا ہے تو یہ اس کے سعادت مند ہونے کی علامت ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم