سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى تلاوت كا وقت نہيں ملتا

سوال

رمضان المبارك كى مباركباد قبول فرمائيں، رمضان شروع ہوتے وقت ميں نے اپنے ساتھ وعدہ كيا تھا كہ قرآن مجيد ختم كرونگا، ليكن افسوس ميں صبح چھ بجے اٹھتا ہوں اور ساڑھے پانچ بجے گھر واپس لوٹتا ہوں، اور افطارى كے بعد ہمت نہيں ہوتى تو رات دس بجے تك سوتا ہوں، اور پھر سحرى تك بيدار رہتا ہوں، تقريبا سويا ہى ہوتا ہوں بارہ بجے تك سو جاتا ہوں تا كہ صبح اٹھ سكوں، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم بھى آپ كو رمضان كريم كى مبارك ديتے ہيں، اور اللہ سے دعا كرتے ہيں كہ وہ اپنا ذكر و شكر اور اچھى طرح عبادت كرنے ميں معاونت فرمائے.

مسلمان شخص سے مطلوب يہ ہے كہ وہ دنيا و آخرت كى مصلحت اكٹھى اور جمع كرے، نہ تو وہ ان افراد ميں شامل ہو جو دنيا اس دليل سے چھوڑ ديتے ہيں كہ وہ آخرت چاہتے ہيں اور اپنى دنيا خراب كر ليتے ہيں.

اور نہ ہى ان ميں شامل ہو جو آخرت كو چھوڑ كر دنيا كى طرف ہى دوڑ پڑتے ہيں.

بلكہ دنيا سے مقصود يہ ہے كہ اس سے آخرت كا زاد راہ تيار كيا جائے، كيونكہ دنيا دار قرار نہيں، بلكہ يہ تو ايك راستہ ہے جس سے انسان نے گزر كر آخرت كى طرف جانا ہے.

لہذا عقلمند مومن وہى ہے جو اس دار آخرت ميں جانے كى تيارى كرتا ہے، اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقلمند كے بارہ ميں دريافت كيا گيا كہ:

" لوگوں ميں سب سے عقل و دانش والا شخص كون ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

جو موت كو سب سے زيادہ ياد كرتا ہو، اور اس كى سب سے زيادہ تيارى كرے "

اسے امام طبرانى نے روايت كيا ہے، اور علامہ منذرى نے الترغيب و الترھيب ( 4 / 197 ) اور الھيثمى نے مجمع الزوائد ( 10 / 312 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

اور الاحياء كى احاديث كى تخريج ميں علامہ عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى سند جيد ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے الترغيب ( 1964 ) ميں ضعيف كہا ہے.

ديكھيں: الاحياء ( 5 / 194 ).

اس ليے رحلت كے دن يعنى موت كے ليے تيارى كرنا ضرورى ہے، كيونكہ يہ تو ايك عارضى ٹھكانہ ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى رحمت ميں جمع كرے.

اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ دنيا و آخرت دونوں كے عمل جمع كرے، كيونكہ انسان كو رہائش كى ضرورت ہے، اور مال كى بھى اور لباس كى بھى، اور اسى طرح كھانے پينے كى بھى تا كہ وہ زندہ رہے، اور اسے صحيح ايمان اور عقيدہ كى بھى ضرورت ہے، اور نماز روزہ كى بھى، اور اللہ كا ذكر كرنے كى بھى، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كى بھى اور اسى طرح لوگوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى بھى..... تا كہ وہ اپنے دل كو زندہ ركھ سكے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول كى بات مانو جب وہ تمہيں اس كى طرف بلائيں جو تمہيں زندہ ركھنے كا باعث ہے الانفال ( 24 ).

لہذا مسلمان رمضان اور رمضان كے علاوہ قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا محتاج ہے، اسے چاہيے كہ وہ روزانہ قرآن مجيد كى كچھ تلاوت كيا كرے، تا كہ زيادہ سے زيادہ چاليس يوم ميں قرآن مجيد ختم كر لے.

ليكن رمضان المبارك ميں تو اس سے بھى زيادہ مطلوب ہے كيونكہ يہ افضل مہينہ اور اطاعت اور قرآن مجيد كى تلاوت كا موسم ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں ہم نے قرآن مجيد نازل فرمايا البقرۃ ( 185 ).

اس ليے آپ اپنے پورے دن ميں سے ايك گھنٹہ قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے نكال سكتے ہيں جس ميں دو پاروں سے زيادہ قرآن مجيد كى تلاوت ہو سكتى ہے، اس طرح آپ ماہ رمضان ميں دو يا تين بار ختم كر سكتے ہيں.

اس طرح آپ مواصلات ميں جو وقت گزارتے ہيں اس سے بھى مستفيد ہو سكتے ہيں، قرآن مجيد آپ كے ساتھ ہونا چاہيے اس طرح آپ اس قليل سے وقت ميں كئى بار قرآن مجيد ختم كر سكتے ہيں، يا پھر ملازمت ميں آپ اپنے مالك سے يہ طے كر سكتے ہيں كہ وہ آپ كى ڈيوٹى ميں كچھ كمى كر دے چاہے اس سے وہ تنخواہ كم كر لے، اللہ تعالى آپ كواس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.

اور يہ بھى ممكن ہے كہ آپ آخرى عشرہ كى چھٹياں حاصل كر ليں، يا دس نہيں كم چھٹياں لے ليں، بہر حال آپ اس ماہ مبارك سے فائدہ حاصل كريں، جتنى استطاعت و طاقت ہے اس كے مطابق عمل كريں، اور پھر فرصت موجود ہے، اور دن باقى ہيں اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اطاعت كى توفيق دے.

اور اگر ڈيوٹى ميں كمى نہيں ہو سكتى يا پھر آپ چھٹى نہيں لے سكتے تو آپ بقدر استطاعت وقت سے فائدہ اٹھائيں جب اللہ تعالى جان لےگا كہ آپ قرآن مجيد كى تلاوت كى حرص ركھتے ہيں اگر كام نہ ہوتا تو ضرور كرتے، تو ان شاء اللہ اللہ تعالى آپ كو ضرور ثواب سے نوازےگا، جس قدر آپ كى نيت ہو گى اسى قدر ثواب بھى ملےگا.

اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جنہيں وہ پسند كرتا ہے اور جن سے راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب