الحمد للہ.
سوال نمبر (50718 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ جو لوگ نماز تراويح كى ہر دو ركعت كے بعد اجتماعى ذكر كرتے ہيں يہ بدعت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا، اور نہ ہى كسى صحابى نے يہ عمل كيا.
آپ نے لوگوں كو اس كے متعلق بتا كر اور اس بدعت سے روك كر اچھا اور بہتر اقدام كيا ہے، ان كے ليے ضرورى اور واجب تھا كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر عمل كرتے ہوئے اس عمل كو ترك كر ديتے كيونكہ اسى ميں بہترى ہے اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہى اكمل و احسن ہے.
آپ كو ان كے ساتھ ہى نماز ادا كرتے رہنا چاہيے اور انہيں سنت كى طرف دعوت ديتے رہيں، اللہ تعالى آپ كے ليے آسانى پيدا فرمائيگا اور ان ميں سے كچھ لوگ حق قبول كر لينگے جو حق كى ركھتے ہوں اگرچہ كچھ لوگ حق كا انكار بھى كرتے پھريں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر يہ لوگ اس كا انكار بھى كر ديں تو ہم نے اس كے ليے ايسے بہت لوگ مقرر كر ديئے ہيں اس كے منكر نہيں الانعام ( 89 ).
ليكن اگر آپ اس مسجد والوں كى جانب سے عناد و تكبر اور حق كا انكار ديكھيں تو پھر آپ كے ليے كسى دوسرى مسجد ميں نماز ادا كرنا ممكن ہے جہاں سنت كى اتباع اور بدعات سے اجتناب ہوتا ہو، كيونكہ بدعت سے اجتناب اولى اور بہتر ہے ليكن اگر ايسا ممكن ہو سكے تو پھر آپ كے ليے اسى مسجد ميں نماز ادا كرنا بہتر ہے، كيونكہ آپ پر جو دعوت كا كام واجب تھا وہ آپ كر رہے ہيں، ہو سكتا ہے وہ ہدايت پر آ جائيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
انہوں نے جواب ديا كہ تمہارے رب كے روبرو عذر كرنے كے ليے اور اس ليے كہ شائد يہ ڈر جائيں الاعراف ( 164 ).
اور اگر اہل سنت يعنى سنت پر عمل كرنے والے افراد اس بنا پر مساجد ميں جانا ترك كر ديں تو يہ چيز اہل بدعت كے زيادہ ہونے اور ان كے پھيلنے كا سبب بن جائيگا، اور سنت دب كر رہ جائيگى، اس ليے آپ مساجد ميں ہى نماز ادا كريں، اور لوگوں كے سامنے سنت بيان كرتے رہيں، اور خود بھى سنت پر عمل كرتے رہيں اور اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اختيار كرتے ہوئے جاہل كے ساتھ نرمى و پيار و محبت كا سلوك كريں.
اللہ تعالى آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .