جمعہ 8 ربیع الثانی 1446 - 11 اکتوبر 2024
اردو

ایک مسلمان عورت عیسائی لیڈی ڈاکٹر سے بات چیت کرتے ہوئے اسے دعائیں دیتی ہے۔

سوال

میں کسی مرد معالج سے علاج کروانا پسند نہیں کرتی، میں لیڈی ڈاکٹر کے پاس ہی جاتی ہوں، اور میرے علم کے مطابق ہمارے ہاں ماہر لیڈی ڈاکٹر ایک ہی ہے جو کہ عیسائی ہے، وہ میرے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتی ہیں، اور ہم ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے ہیں، اور میری صورت حال یہ ہے کہ میں ہمیشہ بات چیت کرتے ہوئے یہ کہتی رہتی ہوں کہ: اللہ تعالی آپ کو عزت دے۔ اللہ تعالی آپ پر اپنا کرم فرمائے۔ اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔ تو کیا میرا ایسی دعائیں کرنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ذمی کافر، یا معاہد کے لیے دعا کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: ایسی دعائیں جن کا تعلق آخرت سے ہے، مثلاً: اس کے لیے جنت میں داخل ہونے کی دعا، یا مغفرت و رحمت کی دعا، یا جہنم سے خلاصی پانے کی دعا، یا اسی طرح پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت پانے کی دعا وغیرہ ۔

تو اس قسم کی دعائیں کافر کے لیے مانگنا جائز نہیں ہے؛ ان سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
 ترجمہ: نبی اور ایمان لانے والوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، بعد ازاں کہ جب ان کے لیے واضح ہو گیا کہ وہ جہنم میں جانے والے ہیں۔[التوبہ: 113]

اور صحیح مسلم (976) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی مغفرت کے لیے اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔)

امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/120)کہتے ہیں:
"کافر کا جنازہ پڑھنا اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنا قرآن کریم کی واضح نص اور اجماع کی روشنی میں حرام ہے۔" ختم شد

دوسری قسم: دنیاوی امور سے متعلق دعائیں، مثلاً: مال و اولاد میں کثرت کی دعا، یا بیماری سے شفا کی دعا، یا کامیابی اور خوشیوں کی دعا وغیرہ جائز ہے، ان میں اہم ترین دعا یہ ہے کہ آپ اس کی ہدایت کی دعا کریں، اس قسم کی دعاؤں میں کوئی حرج نہیں ہے نہ ہی کوئی گناہ ہے، اس کی متعدد وجوہات ہیں:

1- دوسری قسم کی دعاؤں سے کہیں منع نہیں کیا گیا، اور دعا کے بارے میں اصل حکم جواز کا ہے تا آں کہ منع کی دلیل ملے۔

2- صحیح احادیث میں کافر کے سلام کا جواب دینے کا جواز موجود ہے کہ جب کافر واضح لفظوں میں سلام کہے تو پھر آپ سلام کا جواب دیں، اور سلام کا جواب سلامتی اور عافیت کی دعا ہوتا ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں کافر کو دم کرنے کا تذکرہ ہے، اور دم بھی شفا کی دعا ہوتی ہے، اس کی تفصیلات ہم پہلے سوال نمبر: (6714) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں۔

3-اس طرح اس کافر کی تالیف قلبی ہو گی، اور کافر کی تالیف قلبی مقاصد شریعت میں معتبر مصلحت ہے؛ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیمار یہودی لڑکے کی عیادت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔

4-غیر مسلم کے لیے دعائیں بعض سلف صالحین سے بھی منقول ہیں، جیسے کہ:
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک آدمی عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا جس کی شکل و صورت مسلمانوں جیسی تھی، اس نے سلام کیا تو عقبہ نے انہیں جواب دیا اور کہا: وعلیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جس پر غلام نے انہیں بتلایا یہ شخص تو عیسائی تھا۔ یہ بات سن کر عقبہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اس کے پاس پہنچ کر کہا: اللہ کی رحمت اور برکت تو اہل ایمان کے لیے ہے، لیکن اللہ تعالی تمہاری زندگی دراز کرے اور مال و اولاد میں اضافہ فرمائے۔ اس اثر کو امام بخاری نے "الأدب المفرد" (1/380) میں روایت کیا ہے۔

اسی طرح حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب آپ کسی ذمی شخص کے پاس تعزیت کے لیے جائیں تو کہیں: آپ کی خیر ہی ہو گی۔
اس اثر کو ابن قیم رحمہ اللہ نے "أحكام أهل الذمة" (1/438) میں بیان کیا ہے اور اسی طرح کے مزید آثار بھی نقل کیے ہیں۔

5- فقہائے کرام نے بھی اس طرح کی دعائیں غیر مسلم کے لیے کرنے کی اجازت دی ہے، ذیل میں فقہائے کرام کی گفتگو سے اقتباسات پیش کرتے ہیں:
حنبلی فقیہ علامہ بہوتی رحمہ اللہ کی کتاب "كشاف القناع" (3/130) میں ہے کہ:
"غیر مسلم کو خوش آمدید کہنا جائز ہے، آپ پوچھ سکتے ہیں کہ : آپ کیسے ہو؟ اسی طرح: کیا حال ہے؟ اسی طرح مسلمان ذمی کو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ: اللہ تعالی آپ کو عزت بخشے، اللہ تعالی آپ کی رہنمائی فرمائے اور مراد اسلام کی جانب رہنمائی لے۔ ایک بار ابراہیم حربی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے عرض کیا: غیر مسلم کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ : اللہ تعالی آپ کو عزت بخشے؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: ہاں کہہ سکتا ہے اور نیت یہ رکھے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالی تمہیں معزز بنائے۔" مختصراً ختم شد

اسی طرح شافعی فقہائے کرام کی کتاب: "نهاية المحتاج" (1/533) ، اور اسی طرح "تحفة المحتاج" کے حاشیہ :(2/88) میں ہے کہ:
"کافر کے لیے جسمانی صحت اور روحانی ہدایت کے دعا کی جا سکتی ہے۔" ختم شد

ایسے ہی علامہ مناوی رحمہ اللہ "فيض القدير" (1/345) میں کہتے ہیں:
"کافر کے لیے ہدایت، صحت اور عافیت جیسی دعا کی جا سکتی ہے، مغفرت کی دعا نہیں کی جا سکتی۔" ختم شد

اس بنا پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ کسی عیسائی لیڈی ڈاکٹر کے لیے سوال میں مذکور الفاظ کے ساتھ دعا کریں کہ : " اللہ تعالی آپ کو عزت دے۔ اللہ تعالی آپ پر اپنا کرم فرمائے۔ " اور اس میں آپ کی یہ نیت ہو کہ اللہ تعالی انہیں اسلام کے ذریعے عزت اور تکریم عطا فرمائے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک مسلمان آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی عیسائی سے کہے؟ اللہ تعالی تم پر اپنا کرم فرمائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا: ہاں کہہ سکتا ہے، اور ذہن میں دین اسلام کے ذریعے کرم ہو۔
"الآداب الشرعية" از ابن مفلح (1/369)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب