جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

مشرکین کی ممنوعہ مشابہت کا ضابطہ

سوال

میں نے کچھ لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ پینٹ شرٹ اور تھری پیس سوٹ پہننا حرام ہے؛ کیونکہ اس میں کافروں کی مشابہت ہے، تو کیا ان کی یہ بات صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے مسلمان پر کافروں کی مشابہت اختیار کرنا حرام قرار دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بارے میں سختی بھی کی اور فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انہی میں سے ہے۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (4031)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

کافروں کی مشابہت ایسے کاموں میں ہو گی جو کافروں کے لیے مختص ہوں، اور مسلمان اس کام میں کافروں کے شریک نہ ہوں۔

یہاں کام کے مختص ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ: جب کوئی شخص کسی ایسے کام میں ملوث ہو کہ جسے دیکھ کر دیکھنے والا کہے یہ تو فلاں قوم سے تعلق رکھتا ہے جن کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ یہ بات صرف ایسے کام کے متعلق ہو سکتی ہے جو خاص وہ قوم کرتی ہو، تاہم ایسا کام جو مسلمان اور غیر مسلم تمام کرتے ہوں تو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کام کرنا غیر مسلموں کی ممنوعہ مشابہت ہے تو یہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہ کام غیر مسلموں کے ساتھ مختص نہیں ہے۔

اس بنا پر؛ ایسی چیزیں جنہیں صرف مشرکین کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ہی منع قرار دیا جا سکتا ہے یہ وقت اور جگہ ، اور رسم و رواج کے اعتبار سے الگ الگ حکم رکھ سکتی ہیں۔

چنانچہ اگر پینٹ کوٹ کسی بھی علاقے میں صرف کافر ہی پہنتے ہوں تو پھر اس علاقے میں مسلمانوں کا پینٹ کوٹ پہننا حرام ہو گا، اور اگر کسی علاقے میں پینٹ کوٹ مسلمان اور غیر مسلم سبھی پہنتے ہوں تو پھر اس علاقے میں پینٹ کوٹ پہننا جائز ہو گا۔

چنانچہ آج کل پینٹ کوٹ پہننا کافروں کے ساتھ مختص نہیں ہے، اکثر ممالک میں مسلمان بھی پہنتے ہیں، اور پینٹ کوٹ پہننے کو کوئی بھی کافروں کے ساتھ مشابہت قرار نہیں دیتا۔

اس بنا پر: پینٹ پتلون پہننا جائز ہو گا ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہم پہلے دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی ذکر کر چکے ہیں کہ پینٹ پتلون پہننا جائز ہے، اور یہ کافروں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے، جیسے کہ سوال نمبر: (105412) اور (105413) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
مشرکین کی ممنوعہ مشابہت کا کیا ضابطہ ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"کافروں کی مشابہت لباس، کھانے پینے، اور مظہر سب میں ہو سکتی ہے؛ کیونکہ مشابہت کا لفظ عام ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوئی ایسا کام کرے جو صرف کافر ہی کرتے ہیں، کہ اس کام کو کرتے ہوئے کو دیکھنے والا یہ کہے کہ یہ شخص کافر ہے۔ یہ ممنوعہ مشابہت کا ضابطہ ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز مسلمانوں اور کافروں دونوں میں عام ہو تو پھر اس میں مشابہت جائز ہو گی، اگرچہ اس کام کی اصل کافروں سے ہی ماخوذ کیوں نہ ہو، بشرطیکہ وہ کام بعینہ شریعت میں منع نہ ہو، مثلاً: ریشم کا لباس بعینہ حرام ہے۔" ختم شد
"مجموع دروس وفتاوى الحرم المكی" (3/367)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ہی ایک بار پوچھا گیا:
کافروں سے مشابہت کا کیا معیار ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"مشابہت کا معیار یہ ہے کہ مشابہت کا عمل ایسا ہو کہ صرف کافر ہی اس کام کو کرے، چنانچہ کافروں کے ساتھ مشابہت یہ ہو گی کہ مسلمان کافروں کا مخصوص کام کرے، چنانچہ اگر کوئی کام مسلمانوں میں اس طرح پھیل جائے کہ کافر اور مسلمان میں فرق کرنا مشکل ہو تو پھر اس میں ممنوعہ مشابہت نہیں ہو گی، چنانچہ وہ کام اس لیے حرام نہیں ہو گا کہ اس میں کافروں کی مشابہت ہے، ہاں کسی اور وجہ سے حرام ہو سکتا ہے۔ ہمارا یہ موقف مشابہت کے لفظ کی صحیح دلالت پر مبنی ہے، یہی موقف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: (10/272) میں ذکر کیا ہے، آپ کہتے ہیں: "بعض سلف صالحین کے برنس [ہڈ والا لمبا اوور کوٹ۔ مترجم] پہننا منع ہے؛ ان کے ہاں یہ راہبوں کا لباس ہے، تاہم امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا: اسے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ا س پر کچھ نے کہا : یہ تو عیسائیوں کا لباس ہے ۔ تو امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: یہ یہاں مدینہ میں پہنا جاتا تھا۔"
تو میرے [یعنی ابن عثیمین کے] مطابق اگر مام مالک رحمہ اللہ دلیل کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کو پیش کرتے تو زیادہ بہتر تھا کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ مُحرم احرام کی حالت میں کیا پہن سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (قمیص، عمامہ، شلوار، اور برنس نہ پہنے۔۔۔) الحدیث
فتح الباری: (1/307) ہی میں یہ بھی ہے کہ: "اگر ہم کہیں کہ ارجوانی گدوں [گھوڑے اور گھڑ سوار کے درمیان بچھایا جانے والا کپڑے کا بنا ہوا گدا۔] سے ممانعت اس لیے کہ اس میں غیر مسلموں کی مشابہت ہے تو یہ ممانعت دینی مصلحت کی وجہ سے ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ ان کافروں کا مذہبی شعار ہو، تو اب چونکہ یہ کافروں کا مذہبی شعار نہیں رہا تو ممانعت کی وجہ ختم ہو گئی اور ممانعت کا حکم زائل ہو گیا۔ واللہ اعلم۔ اھ" "ختم شد
"فتاوى العقيدة" (ص245)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21694 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب