سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رمضان كے آخرى عشرہ ميں قيام الليل كى دو حصوں ميں تقسيم

سوال

برائے مہربانى رمضان كے آخرى عشرہ ميں قيام الليل كو حصوں ميں تقسيم كرنے كے متعلق علماء كرام كے اقوال بيان فرمائيں كہ كچھ قيام رات كے اول ميں اور كچھ آخر ميں كرتے ہيں جيسا كہ آج كل اكثرمساجد ميں ہو رہا ہے، اور اس كے ساتھ اگر ممكن ہو سكے تو دلائل بھى ذكر كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان المبارك كى راتوں ميں رات كو قيام اور دوسرى عبادات كرنا مستحب ہے، اور خاص كر آخرى عشرہ كو مزيد عبادت و تہجد كے ليے مخصوص كرنا چاہيے تا كہ اللہ كى مغفرت و بخشش اور رحمت طلب كى جا سكے، اور ليلۃ القدر كا حصول بھى ہو جو كہ ايك ہزار راتوں سے افضل ہے.

پھر نماز تراويح تو قيام الليل ميں شمار ہوتى ہيں اور اسے تراويح اس ليے كہا جاتا ہے كہ ركعات كے درميان كچھ راحت كرنے كے ليے بيٹھا جاتا ہے، اس ليے اس ميں وسعت پائى جاتى ہے، اور آدمى كے ليے رات كے وقت جتنى چاہے ركعات ادا كرنى جائز ہيں اور جس وقت چاہے ادا كر سكتا ہے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنے كے مسنون ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "

اور فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ: تراويح قيام رمضان ہيں؛ اس ليے افضل و بہتر يہى ہے كہ رات كا اكثر حصہ اسع بادت ميں بسر كيا جائے؛ كيونكہ يہ قيام الليل ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 123 ).

آج كل خاص كر آخرى عشرہ ميں جو اكثر امام عشاء كى نماز كے بعد لوگوں كوتراويح پڑھاتے ہيں اور پھر رات كےآخرى حصہ ميں دوبارہ مسجد آ كر قيام كرتے ہيں يہ مشروع ہے ممنوع نہيں، اور اس كے ليے كوئى ايسى دليل نہيں جو منع كرتى ہو.

مقصود يہ ہے كہ آخرى عشرہ ميں حسب استطاعت جدوجھد كى جائے اور رات كو بيدار رہا جائے، اور اگر انسان رات كو دو حصوں ميں تقسيم كرے كہ كچھ رات كى ابتدا ميں عشاء كے بعد كچھ قيام كر لے اور پھر سو جائے اور رات كے آخرى حصہ ميں اٹھ كردوبارہ قيام كرے يا قرآن مجيد كى تلاوت كرے تو يہ بہتر اور افضل ہے.

شيخ عبد اللہ بابطين كہتے ہيں:

" مسئلۃ:

رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں عادت سے زيادہ قيام كرنے كا بعض لوگ انكار كرتے ہيں اس كا جواب يہ ہے كہ:

اس كے انكار كا سبب يہ ہے كہ اغلب طور پر عادت نہيں اور پھر سنت سے جہالت ہے كہ جس پر صحابہ كرام اورتابعين عظام اور آئمہ كرام تھے اس كا لوگوں كو علم نہيں.

اس كے بارہ ميں ہم يہى كہيں گے كہ: احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے رمضان المبارك ميں قيام كى ترغيب ثابت ہے، اور خاص كرآخرى عشرہ ميں تو اس كى اور بھى تاكيد آتى ہے.

جب يہ واضح ہوگيا كہ تراويح كى ركعات كى تحديد نہيں اور سب علماء كے ہاں اس كا وقت نماز عشاء كى سنتوں كے بعد سے لے كرطلوع فجر تك ہے، اور آخرى عشرہ كى راتوں كو بيدار رہنا سنت مؤكدہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى راتيں باجماعت تراويح پڑھائيں تو پھر پہلے عشرہ ميں ايسا كرنے والے شخص آخرى عشرہ ميں كرنے والے پراعتراض كيسے كرتا ہے.

رات كى ابتدا ميں نماز ادا كرتا ہے جس طرح وہ رمضان كى ابتدا ميں ليكن وتر نہيں پڑھتا اور پھر بعد ميں جتنى آسانى ہو ادا كرتا ہے اس سب كو قيام كہا جائيگا.

اور ہو سكتا ہے انكار كرنے والے كوفقھاء كے اس قول سے دھوكہ ہوا ہو كہ مستحب يہ ہے كہ قرآن مجيد ايك بار قرآن مجيد ختم كرنے سےزائد نہ پڑھے، ليكن مقتديوں پر زيادہ پر ترجيح ديتے ہوں.

اس كى علت انہوں نے يہ بيان كى ہے تا كہ ايك بار سے زائد بار قرآن ختم كرنے ميں مقتديوں كو مشقت نہ ہو، يہ نہيں كہ شرعى طور پر زيادہ مشروع نہيں، ان كى كلام اس پر دلالت كرتى ہے كہ اگر مقتدى ايك بار ختم كرنے سے زيادہ كو ترجيح ديتے ہوں تو مستحب ہے، اور اس كى تصريح علماء كے اس قول ميں ہےكہ: الا يہ كہ مقتدى زيادہ كو ترجيح ديتے ہوں.

لوگوں كى زبان پر رات كى ابتدا ميں كيے جانےوالے قيام كو تراويح كا نام چلنا اور اسے تراويح كہنا اور بعد ميں كيے جانے والے قيام كو تہجد كہنا يہ عوامى تفريق ہے، حالانكہ يہ سب قيام ہى ہے.

بلكہ اسے قيام رمضان كو تراويح كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ ہر چار ركعت كے بعد لوگ تھوڑا آرام كرتے تھے كيونكہ وہ نماز لمبى ادا كرتے تھے، ( يعنى سنت كے مطابق آٹھ ركعت ) اس كا انكار كرنےوالے كا سبب يہ ہے كہ وہ جہاں رہتا ہے اس علاقے كےلوگ ايسا نہيں كرتے اور يہ ان كى عادت كى مخالفت ہے، اور اس دور كے اكثر لوگوں كى بھى عادت نہيں اور اسى طرح وہ سنت نبويہ سے بھى جاہل ہے اور آثار كا بھى علم نہيں.

اور اسى طرح صحابہ كرام اور تابعين عظام جس طريقہ پر تھے اس سے بھى جاہل ہے، اور كچھ لوگ جو يہ گمان كرتے ہيں آخرى عشرہ ميں جو ہمارى بعد والى نماز ہے اسے بعض علماء نے ناپسند كيا ہے، حالانكہ ايسا نہيں كيونكہ تعقيب والى نماز تو وہ كہلاتى ہے جو نماز تراويح اور وتر سے فارغ ہو كر باجماعت ادا كى جائے.

نماز تعقيب كى تعريف ميں سب فقھاء كى كلام يہى ہے كہ وہ تراويح اور نماز وتر كے بعد باجماعت نفلى نماز ہے، اس طرح ان كى كلام سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نماز وتر سے قبل نماز تعقيب نہيں كہلائيگى " انتہى مختصرا

ديكھيں: الدرر السنيۃ ( 4 / 364 ).

اور شيخ صالح الفوزان اپنى كتاب " اتحاف اہل الايمان بمجالس شھر رمضان " ميں رقطراز ہيں:

" رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں مسلمان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتےہوئے اپنى جدوجھد اور عبادت زيادہ كر ديتے ہيں، تا كہ ليلۃ القدر كا حصول ہو كيونكہ يہ رات ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے.

اس ليے جو لوگ ابتدا رمضان ميں تئيس ركعات ادا كرتے ہيں وہ آخرى عشرہ ميں اسے تقسيم كر ديتے ہيں اس طرح وہ رات كى ابتدا ميں دس ركعات ادا كرتے ہيں جسے وہ تراويح كا نام ديتے ہيں، اور رات كےآخرى حصہ ميں دس ركعات اور وتر ادا كرتے ہيں اور يہ ركعات پہلى ركعتوں سے عموما لبمى ہوتى ہيں اور اسے قيام يا تہجد كا نام ديتے ہيں.

يہ صرف نام كا اختلاف ہے وگرنہ سارى ركعات كو تراويح يا قيام كہنا جائز ہے، اور جو شخص ماہ كے ابتدا ميں گيارہ يا تيرہ ركعات ادا كرتا تھا اور آخرى عشرہ ميں دس ركعات كا اضافہ كر كے رات كے آخرى حصہ ميں لمبى كركے ادا كرتا ہے تا كہ آخرى عشرہ كى فضيلت كو پا سكے اور خير و بھلائى ميں زيادہ جدوجھد كر سكے تو جائز ہے،

اور اس كى دليل سلف صحابہ كرام ہيں اور اس كے علاوہ دوسرے علماء بھى ايسا كرتےتھے جيسا كہ اوپر بيان كيا گيا ہے اس طرح انہوں نے دونوں قول جمع كر لے پہلے بيس دن تو تيرہ ركعات اور دوسرا قول تئيس ركعات والا آخرى عشرہ ميں " انتہى

مزيد آپ سوال نمبر ( 82152 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

يہاں يہ بات ضرورى ہے كہ تراويح ميں سنت گيارہ ركعات ہى ہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہى ثابت ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب