جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

فطرانہ ميں دو مختلف جنس ايك ہى صاع ميں دينا

سوال

كيا فطرانہ ميں ايك چيز سے زائد ايك ہى صاع دينا جائز ہے، يعنى ايك چيز تين كلو دينے كى بجائے ہر ايك چيز ايك كلو دے دى جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مختلف اشياء كا ايك ہى صاع فطرانہ ميں دينا ان مسائل ميں شامل ہوتا ہے جس ميں فقھاء كا اختلاف پايا جاتا ہے، اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:

" پہلا قول:

يہ صحيح نہيں، اور نہ ہى كفائت كريگا، يہ قول شافعيہ اور ابن حزم ظاہرى كا قول ہے؛ كيونكہ انہوں نے ان ظاہرى نصوص كا ليا ہے جن ميں بيان ہوا ہے كہ فطرانہ معين انواع كا ايك صاع ہے، اس ليے جب نصف صاع ايك قسم سے اور نصف صاع دوسرى چيز كا ادا كر ديا جائے تو نصوص ميں وارد شدہ پر عمل نہيں ہوا.

امام شافعى اور مصنف ـ يعنى شيرازى ـ اور سارے اصحاب كا كہنا ہے كہ:

فطرانہ ميں اگر دو جنسوں كو ملا كر ايك صاع ديا جائے تو يہ كفائت نہيں كريگا .... جس طرح قسم كے كفارہ ميں پانچ اشخاص كو لباس ديا جائے اور پانچ كو كھانا تو يہ كافى نہيں؛ كيونكہ مامور اور حكم تو اس كا ہے كہ ايك صاع گندم يا جو وغيرہ ديا جائے، اور ان دونوں جنسوں ميں سے ايك صاع نہيں ديا جائيگا.

بالكل اسى طرح جس طرح اسے دس مسكينوں كو كھانا دينے يا پھر لباس دينے كا حكم ہے، ليكن اس نے مذكورہ بالا صورت ميں نہ تو دس اشخاص كو لباس ديا ہے، اور نہ ہى دس اشخاص كو كھانا ديا، يہى مذہب ہے " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 6 / 98 - 99 ) اور مزيد آپ مغنى المحتاج ( 2 / 118 ) اور تحفۃ المحتاج ( 3 / 323 ) كا بھى مطالعہ كريں.

اور المحلى ميں ابن حزم رحمہ اللہ كا قول ہے:

" كچھ حصہ صاع كا جو اور كچھ كھجور نكالنا جائز نہيں، اور نہ ہى اصل ميں اس كى قيمت دينى كافى ہو گى؛ كيونكہ يہ سب كچھ تو اس كے علاوہ ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرض كيا ہے " انتہى مختصرا.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 259 ).

اور القواعد الفقھيۃ ميں ابن رجب حنبلى كہتے ہيں:

" جسے جو اشياء كے درميان اختيار ديا جائے اور اس كے ليے دونوں آدھى آدھى كرنا ممكن ہو تو كيا يہ كافى ہو گى يا نہيں ؟

اس ميں اختلاف ہے، اور اس سے كئى ايك مسائل نكلتے ہيں:

اس ميں يہ بھى ہے كہ:

اگر كسى شخص نے قسم كے كفارہ ميں پانچ اشخاص كو كھانا كھلايا اور پانچ كو لباس ديا تو مشہور قول كے مطابق كافى ہوگا.

اور اس ميں يہ بھى ہے كہ:

اگر كسى شخص نے دو جنسيں ملا كر ايك صاع فطرانہ ديا تو مذہب يہى ہے كہ كفائت كر جائيگا، اور ايك وجہ كے مطابق يہ كافى نہيں ہو گا " انتہى

ديكھيں: القواعد الفقھيۃ قاعدہ نمبر ( 101 ) صفحہ نمبر ( 229 ) مزيد آپ الانصاف ( 3 / 183 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 365 ) كا بھى مطالعہ كريں.

سنت نبويہ كى ظاہر نصوص پر عمل كرتے ہوئے ہم بھى امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك ہى اختيار كرتے ہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ ميں ايك صاع جو يا ايك صاع كھجور وغيرہ ادا كرنا فرض كي ہيں .... الخ.

اور صحابہ كرام بھى اسى طرح فطرانہ ادا كيا كرتے تھے، چنانچہ جس كسى نے بھى دو جنس ميں فطرانہ ادا كيا تو وہ ايسا عمل كر رہا ہے جس كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم نہيں ديا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب