الحمد للہ.
بيوى كو حق مبيت و معاشرت اور حق استمتاع حاصل ہے، اور اگر خاوند اس كا يہ حق ادا نہيں كرتا تو پھر بيوى كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن اگر وہ خاوند كے ساتھ ہى رہنا چاہتى ہے اور اپنے اس حق سے دستبردار ہو جائے تو بھى اسے ايسا كرنے كا حق ہوگا، اور اس صورت ميں آپ كو اسے طلاق دينا لازم نہيں.
امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
" ام المومنين سودۃ بنت زمعہ رضى اللہ تعالى عنہا جب بڑى عمر كى ہو گئيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كرنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ و سلم ميں نے اپنى بارى عائشہ كو دى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ليے دو دن تقسيم كيے ايك دن عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اور ايك دن سودہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں جو ہبہ كيا تھا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1463 ).
اس حديث سے ثابت ہوتا ہے كہ عورت كے ليے اپنا حق مبيت اور تقسيم ساقط كرنا جائز ہے، اور وہ اپنى بارى سوكن كو ہبہ كر سكتى ہے.
اور اگر بيوى اس حالت ميں راضى نہ ہو اور وہ طلاق بھى نہ لينا چاہتى ہو تو پھر آپ اپنے معاملہ ميں ذرا غور كريں اور اس مشكل كو حل كرنے كى كوشش كريں، اور اسے اس كا حق ديں اور اس سے حسن سلوك اور حسن معاشرت كريں اور اس كے ساتھ وفادارى كا ثبوت ديں، كيونكہ وہ آپ كى بچوں كى ماں ہے، اور آپ كے ساتھ اس نے اتنى زندگى بسر كى ہے.
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہم سب كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .