الحمد للہ.
اول:
"علاج بالمثل" یا ہو میو پیتھی طریقہ علاج ، اصل میں مریض کو لاحق مرض کی انتہائی قلیل مقدار دینے کا نام ہے!، اس طریقہ علاج کے بارے میں تحقیقات اور ریسرچز جاری ہیں، اور دنیائے طب میں ابھی تک اسے حتمی طور پر کامیاب طریقہ علاج قرار نہیں دیا گیا۔
چنانچہ " الموسوعة العربية العالمية " میں ہے:
"علاج بالمثل، یعنی: ہومیوپیتھی:
علاج بالمثل ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو کہ "لوہے کو لوہا کاٹے اور گرمی کو گرمی مارے" کی بنیاد پر قائم ہے، اس طریقہ علاج کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ: عام طور پر جو مادہ صحیح تندرست شخص میں کچھ بیماری یا مرض پیدا کرتا ہے، وہی مادہ بیمار شخص کیلئے شفا یابی کا باعث بن سکتا ہے، چنانچہ -مثال کے طور پر-کچھ جڑی بوٹیاں جلدی سوزش کا باعث بنتی ہیں، علاج بالمثل کے طریقہ پر چلنے والے طبی ماہرین انہی نباتات کو جلدی سوزش کیلئے بطورِ علاج استعمال کرتے ہیں، ایسے ہی پیاز کی وجہ سے آنسو آتے ہیں، اور ناک سے پانی بہنے لگتا ہے، اور علاج بالمثل کے طبی ماہرین پیاز کے ذریعے ہی سردی کے نزلے کا علاج کرتے ہیں، ایک جرمن طبی ماہر "سموئیل ہانی من" نے علاج بالمثل کو اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں دریافت کیا تھا۔
علاج بالمثل میں طریقہ علاج کی توثیق "خود آزمائی" کے اصول کے تحت کی جاتی ہے، جس میں تجویز کردہ دوا کو صحت مند افراد پر تجربے کے طور پر آزمایا جاتا ہے، اور اس دوران ان افراد پر رونما ہونے والے اثرات کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، علاج بالمثل کے طریقہ کار کو اپنانے والے طبی ماہرین ایک وقت میں مریض کو ایک ہی دوا دیتے ہیں، کیونکہ انکا کہنا ہے کہ ایک سے زائد ادویات ایک دوسرے کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے، علاج بالمثل کے دوران ایک مریض کو دوا کی تھوڑی سے تھوڑی مؤثر مقدار دی جاتی ہے، اور ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح دوا کا بھر پور فائدہ ہوتا ہے، اور اسکا یہ بھی فائدہ ہے کہ اس سے جانبی نقصانات ظاہر نہیں ہوتے۔
علاج بالمثل کیلئے استعمال شدہ ادویہ میں استعمال کیا جانے والا مادہ اس وقت زہر کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے،جب زیادہ مقدار میں دوا کا ااستعمال کیا جائے۔
ان سب باتوں سے بڑھ کر سائنسی طور پر بھی علاج بالمثل کی افادیت واضح نہیں ہو سکی، چنانچہ انہی اسباب کی وجہ سے علاج بالمثل کا طریقہ علاج بہت سے طبی ماہرین کی طرف سے تنقید کا محور ہے" انتہی
دوم:
علاج بالمثل کیلئے استعمال ہونی والی ادویہ کے مرکبات کے بارے میں انکی اصل ماہیت کی طرف دیکھا جائے گا، اور پھر ہر ایک کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ ہوگا۔ مثلا
1- زہریلے مادوں کے شامل ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ:
"کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنے سے منع کیا ہے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، نقصان دہ ہو یا فائدے کی توقع ہو ہر صورت میں منع قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنا جائز قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے اس کیلئے کچھ شرائط و ضوابط بیان کیے ہیں، جائز قرار دینے والے علمائے کرام کے ہاں اس زہریلے مادے کے اثرات کو دیکھا جائے گا کہ مریض کے بدن کیلئے کس حد تک سود مند ہے، افادے کی مقدار جاننے کیلئے متعدد تجربات کئے جائیں، تا کہ زہریلے مادے کے نتائج کے متعلق دل بالکل مطمئن ہو، اور یہ بھی کہ اس زہریلے مادے کا اثر لاحق بیماری کے اثرات سے زیادہ نہ ہو۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن ادویات میں زہریلا مادہ پایا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر اسے کھانے کی وجہ سے موت یا دماغی توازن خراب ہونے کا خدشہ ہو تو زہریلا مادہ کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر ظنِ غالب یہ ہو کہ اس سے نقصان نہیں ہوگا، بلکہ فائدہ کی امید ہو، تو اس بنا پر زہریلا مادہ تناول کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے بڑی بیماری ٹل جائے گی، یہی صورت حال دیگر ادویات کی ہے۔
تا ہم یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ زہریلا مادہ نگلنا ناجائزقرار دیا جائے ؛ کیونکہ یہ اپنے آپ کو موت کے دہانے پر ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن صحیح بات پہلا موقف ہی ہے، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جن کے مضر اثرات کا خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود ان کو بڑی بیماری سے بچنے کیلئے تناول کیا جاتا ہے، اور یہ مباح ہے" انتہی مختصراً
"المغنی" (1/447)
2- ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں: [1] کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟ [2] کیا الکحل کو دوائی وغیرہ یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟
پہلی چیز: جمہور اہل علم شراب [الکحل] کو حسی طور پر نجس کہتے ہیں، جبکہ بعض دیگر علمائے کرام شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔
دوسری چیز: الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی، یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔
اور اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق حکم ہوگا۔
اس بارے میں علمائے دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی سوال نمبر: (40530) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
اور اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا تفصیلی فتوی سوال نمبر: (59899) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
خلاصہ:
1- حاذق طبی ماہرین کے ہاں علاج بالمثل کوئی مفید طریقہ علاج نہیں ہے، بلکہ کچھ تو اس طریقہ علاج کے شدید مخالف ہیں، اور اس سے منع بھی کرتے ہیں۔
2- کسی بھی طریقہ علاج کو اپنانے کیلئے اس بات کو یقینی بنا نا ضروری ہے کہ عام طور پر مریض اس طریقہ علاج سے مستفید ہوتا ہے، اور اسے شفا ملتی ہے، یا کم از کم غالب گمان یہی ہو۔
3- ایسی ادویہ سے اپنے آپ کو بچائیں جو زہریلے مواد یا الکحل پر مشتمل ہوں، الا کہ ان کی مقدار کم از کم ہو، ایسے ہی ان ادویات کا موّثق و معتمد نتائج کے مطابق مریضوں پر مثبت اثر ہو۔
4- اس موقع پر ہم آپکو شرعی دم کرنے کا بھی مشورہ دینگے، جو کہ قرآن مجید، اذکار، اور شرعی دعاؤں پر مشتمل ہو، آپ خود پڑھ کر اپنے آپ پر دم کریں، اور اللہ تعالی سے مدد مانگیں کہ آپکی بیماری کو آپ سے دور کر دے، اسی طرح ہم آپ کو ایسی ادویات استعمال کرنے کا مشورہ بھی دینگے جن کے متعلق شرعی نصوص میں مفید ہونے کا ذکر ہے، مثلاً: شہد، اور کلونجی، تاہم انکی مقدار ، اور طریقہ استعمال کے تعین کیلئے طبی ماہرین سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مسلمان مریضوں کو شفا و عافیت سے نوازے۔
واللہ اعلم.