جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کبیرہ گناہوں کے مرتکب حضرات توبہ کے بغیر فوت ہو جائیں تو ان کا انجام کیا ہو گا؟

سوال

فرمانِ باری تعالی ہے کہ:  الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ  یعنی: زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو 100 ڈنڈے مارو۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:  وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً   یعنی: جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں 80 ڈنڈے لگاؤ۔
پھر ایک اور مقام پر فرمایا: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  یعنی: چور مرد اور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کارستانی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے سزا ہے، اور اللہ تعالی غالب اور حکمت والا ہے۔

مذکورہ بالا جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ موجود ہیں لیکن ان پر حدیں لگانے والا کوئی نہیں ہے، یہ لوگ توبہ کے بغیر فوت ہو جاتے ہیں، تو روزِ قیامت اللہ تعالی ان کے بارے میں کیا فیصلہ فرمائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ: مسلمانوں میں سے جو شخص بھی زنا، چوری اور تہمت لگانے جیسے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہوتے ہوئے فوت ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہو گا، اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف فرما دے گا، اور اگر چاہے تو ایسے گناہوں پر سزا دے دے جن پر وہ مصر رہا ہے، لیکن آخر کار جنت اس کا ٹھکانا ہو گا، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرے گا، جبکہ شرک کے علاوہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔[النساء:48] اسی طرح ایسی صحیح اور متواتر احادیث بھی اس بات کی دلیل ہیں جن میں توحید پرست گناہ گاروں کو جہنم سے نکالنے کا ذکر ہے، جیسے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: کیا تم میری اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ زنا کرو گے اور نہ ہی چوری کرو گے ۔۔۔ تم میں سے جو اس بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہے، اور جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہو اور پھر اسے سزا بھی مل جائے تو یہ سزا اس کے گناہ کا کفارہ ہو گی، جس شخص سے مذکورہ کوئی گناہ سر زد ہو جائے اور اس پر اللہ تعالی پردہ ڈال دے تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے پاس ہے، اگر چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے)
اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے، رحمت و سلامتی ہو ہمارے نبی پر، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر" ختم شد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء

الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز     الشیخ عبد الرزاق عفیفی       الشیخ عبد اللہ غدیان   الشیخ عبد اللہ بن قعود

"فتاوى اللجنة الدائمة" (1/728)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب