جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں تفصیلی گفتگو، اور دعا کیلئے آخری سجدہ کو لمبا کرنے کا حکم

112165

تاریخ اشاعت : 28-08-2014

مشاہدات : 15603

سوال

میں ہر جمعہ کو غروبِ آفتاب سے قبل -جس کے بارے میں قبولیت کی گھڑی ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے- مسجد میں جان بوجھ کر داخل ہوتا ہوں، اور اللہ کیلئے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کرتا ہوں؛ پھر دوسری رکعت کے آخری سجدہ کو غروب آفتاب تک لمبا کرتا ہوں، اور اس دوران سجدے کی حالت میں دعا ہی کرتا رہتا ہوں، یہاں تک کہ مغرب کی آذان ہوجاتی ہے؛ کیونکہ جمعہ کے دن آخری لمحات میں قبولیت کی گھڑی پانے کا اچھا موقع ہوتا ہے، اور قبولیت کے امکانات مزید روشن کرنے کیلئے میں سجدے میں دعا مانگتا ہوں، اور بسا اوقات اگر کسی سببی نماز کا وقت نہ ہو ، یا نفل نماز کیلئے ممنوعہ وقت ہو تو میں جان بوجھ کر ایسی سورت کی تلاوت کرتا ہوں جس میں سجدہ تلاوت ہو، تو تب بھی میں اتنا لمبا سجدہ کرتا ہوں کہ جمعہ کے دن مغرب کی آذان ہو جائے، ایک دن میں ایسے ہی کر رہا تھا کہ ایک آدمی نے آکر میرے ذہن میں اس عمل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئیے، اور اس عمل کے بارے میں "بدعت" ہونے کا بھی عندیہ دے دیا۔ تو کیا میرا یہ عمل بدعت ہے؟ حالانکہ میری نیت یہی ہے کہ جمعہ کے دن آخری لمحات میں قبولیت کی گھڑی تلاش کی جائے، اور میں سجدے کی حالت میں اللہ سے دعا مانگوں، تو اس طرح قبولیت کیلئے دو امکانات ہونگے، اس عمل کیلئے میری نیت یہ ہی ہے کہ قبولیت کی گھڑی تلاش کروں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علمائے کرام نے جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کو متعین کرنے کیلئے متعدد اور مختلف آراء دی ہیں، ان تمام آراء میں دلائل کے اعتبار سے ٹھوس دو اقوال ہیں:

1- یہ گھڑی جمعہ کی آذان سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے۔

2- عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک ہے۔

ان دونوں اقوال کے بارے میں احادیث میں دلائل موجود ہیں، اور متعدد اہل علم بھی ان کے قائل ہیں۔

*الف- پہلے قول کی دلیل : ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے) مسلم: (853)

اس موقف کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"سلف صالحین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا قول راجح ہے، چنانچہ بیہقی نے ابو الفضل احمد بن سلمہ نیشاپوری کے واسطے سے ذکر کیا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلہ کے بارے میں صحیح ترین اور بہترین ہے" اسی موقف کے امام بیہقی، ابن العربی، اور علمائے کرام کی جماعت قائل ہے۔

اور امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث اختلاف حل کرنے کیلئےواضح ترین نص ہے، چنانچہ کسی اور کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہئے۔

اور امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: یہی موقف صحیح ہے، بلکہ درست بھی یہی ہے، امام نووی نے اپنی کتاب: "الروضہ" میں ٹھوس لفظوں میں اسی کو درست قرار دیا ہے، اور انہوں نے اس حدیث کو مرفوع اور صریح قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ روایت صحیح مسلم کی ہے" انتہی

" فتح الباری " ( 2 / 421 )

*ب- دوسرے موقف کی دلیل جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو)

اس روایت کو ابو داود: (1048) اور نسائی : (1389) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "صحیح ابو داود" میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح نووی نے "المجموع" (4 / 471) میں صحیح کہا ہے۔

جبکہ اس موقف کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، جن میں سب سے پہلے دو صحابی ابو ہریرہ، اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہما ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"دیگر علمائے کرام عبد اللہ بن سلام کے قول کو راجح قرار دیتے ہیں، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ : "اکثر احادیث اسی موقف کی تائید کرتی ہیں"

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس مسئلہ میں مضبوط ترین یہی موقف ہے"

اور اسی طرح سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے صحیح سند کیساتھ نقل کیا ہے کہ : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے"

متعدد ائمہ کرام بھی اسی موقف کو راجح قرار دیتے ہیں، مثلا: امام احمد، اسحاق، اور مالکی فقہائے کرام میں سے طرطوشی، اور علائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انکے استاد ابن زملکانی –جو اپنے وقت میں فقہ شافعی کے بڑے تھے- بھی اسی کے قائل تھے، اور وہ امام شافعی سے صراحت کیساتھ نقل بھی کرتے تھے" انتہی

"فتح الباری" (2/421)

ان دونوں گھڑیوں میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اکثر احادیث اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قبولیت کی گھڑی عصر کی نماز کے بعد ہے، اور زوال کے بعد بھی قبولیت کی گھڑی کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے" اس قول کو امام ترمذی نے اُن سے نقل کیا ہے۔

" سنن ترمذی" ( 2 / 360 )

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"میرے نزدیک یہ ہے کہ: نماز کا وقت ایسی گھڑی ہے جس میں قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے، چنانچہ یہ دونوں [عصر کے بعد، اور جمعہ کی نماز کا وقت] قبولیت کے اوقات ہیں، اگر چہ عصر کے بعد کے وقت کو اس اعتبار سے خصوصیت حاصل ہے کہ یہ گھڑی آگے پیچھے نہیں ہوگی، جبکہ نماز کی گھڑی نماز کیساتھ منسلک ہے، تو نماز کے آگے پیچھے ادا کرنے سے اس گھڑی کا وقت بھی تبدیل ہوگا؛ کیونکہ مسلمانوں کے ایک جگہ جمع ہوکر ، اور اکٹھے خشوع و خضوع کیساتھ اللہ کی جانب رجوع کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کی بھی ایک تاثیر ہے، چنانچہ مسلمانوں کا یک جا جمع ہونا بھی ایک ایسی گھڑی ہے جس میں قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے"

چنانچہ اس تفصیل کیساتھ تمام احادیث کا مطلب ایک ہوسکتا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ان دونوں اوقات میں دعا کرنے کی ترغیب دلائی ہے" انتہی

"زاد المعاد" (1/394)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"مسلم کی کچھ روایات میں یہ ہے کہ یہ گھڑی: (جب جمعہ کے دن امام منبر پر بیٹھ جائے اس وقت سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے )، ابو موسی رضی اللہ عنہ کی روایت میں مرفوعاً ایسے ہی منقول ہے، جس کے بارے میں کچھ نے یہ کہا ہے کہ یہ ابو بردہ بن ابو موسی کی اپنی بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت نہیں ہے، جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے۔

اسی طرح جابر بن عبد اللہ ، اور عبد اللہ بن سلام کی حدیث میں ہے کہ یہ گھڑی نماز عصر کے بعد سے لیکر غروبِ آفتاب تک ہے، جبکہ کچھ احادیث میں ہے کہ یہ گھڑی جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے، یہ تمام روایات صحیح ہیں اور کوئی بھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے، چنانچہ جس گھڑی کے بارے میں زیادہ امید اور توقع کی جاسکتی ہے وہ: منبر پر امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک، اور عصر کے بعد سے لیکر غروبِ آفتاب تک ہے، ان اوقات کے بارے میں قبولیت کی گھڑی ہونے کی امید کی جاسکتی ہے، جمعہ کے دن کے باقی اوقات میں بھی قبولیت کی گھڑی کی امید لگائی جاسکتی ہے، لیکن زیادہ امید -جیسے کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ – امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک، اور نمازِ عصر سے لیکر غروبِ آفتاب تک ، کے بارے میں کی جاسکتی ہے۔

یومِ جمعہ کے بقیہ اوقات میں قبولیت کی گھڑی کے بارے میں امید کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں عمومی طور پر [یعنی تعین نہیں کیا گیا] جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ جمعہ کے پورے دن میں کثرت کیساتھ اس امیدسے دعا کرنی چاہئے کہ یہ مبارک گھڑی ہمیں نصیب ہوجائے، لیکن مذکورہ تین اوقات کو خصوصی اہمیت دی جائے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کیساتھ فرمایا ہے کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے۔ انتہی

" فتاوى شيخ ابن باز " ( 12 / 401 ، 402 )

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں:

جمعہ کے دن سب زیادہ جس وقت کے بارے میں قبولیت کی گھڑی ہونے کی امید کی جاسکتی ہے وہ [جمعہ کی]نماز کا وقت ہے، اسکی متعدد وجوہات ہیں:

1- اس گھڑی کا ذکر صحیح مسلم میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہوا ہے۔

2- اس وقت میں مسلمان ایک ہی عبادت کیلئے ایک ہی شخص یعنی امام کی قیادت میں جمع ہوتے ہیں، اور مسلمانوں کا اس طرح جمع ہونا [شرفِ]قبولیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

اسی لئے یومِ عرفہ کو جس وقت مسلمان ایک ہی میدان میں جمع ہوں، تو اللہ تعالی آسمان دنیا تک نازل ہوکر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے، اور مسلمانوں کی دعائیں بھی قبول فرماتا ہے۔

اس لئے بھائی جان! جمعہ کے وقت میں دعا کا اہتمام کرو، [سوال یہ ہے کہ] یہ گھڑی کب شروع ہوتی ہے، اور ختم ہوتی ہے؟ [جواب یہ ہے کہ] یہ گھڑی امام کے داخل ہونے سے شروع ہوتی ہے، اور نماز کے مکمل ہونے تک جاری رہتی ہے۔

[آئیں اور] ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اس دوران کس وقت دعائیں مانگیں: امام نے مسجد میں داخل ہوکر سلام کہا، اسکے بعد آذان ہوئی، آذان میں دعا نہیں ہوتی، بلکہ اس میں مؤذن کا جواب دیا جاتا ہے، آذان کے بعد دعا ہے، *آذان اور خطبہ کے مابین دعا ہے، آپ آذان کے بعد کہو گے: (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّداً الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامَاً مَحمُوداً الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ) *پھر اسکے بعد جب تک خطیب خطبہ شروع نہیں کرتاآپ کو کھلی چھٹی ہے، اللہ سے جو چاہو سو مانگو، *اسی طرح دو خطبوں کے درمیان اللہ سے دنیا و آخرت کی بھلائی کے متعلق جو چاہو سو مانگو، * ایسے ہی نماز کے دوران سجدہ میں دعا مانگو جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (اپنے رب کے قریب ترین بندہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو) اس لئے آپ سجدے کی حالت میں اللہ کے قریب ترین ہوتے ہو۔۔۔

٭ کیا نماز میں اسکے علاوہ بھی کوئی دعا کیلئے مقام ہے ؟ [جی ہاں!] تشہد کے بعد جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ([تشہد کے بعد] جو چاہے دعا مانگے)اور حدیث میں ذکر " ما شاء " کے الفاظ جن کا مطلب ہے "جو چاہے" علمائے اصول کے ہاں عموم کا فائدہ دیتے ہیں۔

چنانچہ اس طرح ہمیں نمازِ جمعہ کے وقت قبولیت کی گھڑی کے ضمن میں متعدد مقامات مل سکتے ہیں، بھائی! اس موقع کو غنیمت جانیں، اور نماز جمعہ میں کثرت سے دعا ئیں کریں، شاید آپکو قبولیت کی گھڑی نصیب ہوجائے۔

یہاں اسی دن میں قبولیت دعا کا ایک اور موقع بھی ہے، اور وہ ہے: عصر کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک، لیکن اس موقف کے بارے میں علمائے کرام میں ایک اشکال پیدا ہوگیا، انکا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو) لیکن عصر کے بعد کوئی نماز ہوتی ہی نہیں ہے، تو اسکے بارے میں علمائے کرام نے جواب دیا کہ یہاں پر نماز کی انتظار کرنے والا شخص بھی نمازی ہی کہلائے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ : (جب تک کوئی کسی نماز کاانتظار کرے وہ نماز کی حالت ہی میں رہتا ہے)انتہی

"دروس وفتاوى حرم المدنی سن 1416 ہجری"

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: (وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي) یعنی: (وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو) اور عصر کی نماز کے بعد کسی نماز کا وقت نہیں ہوتا تو آپ کے اس فرمان کے بارے میں دو احتمال ہوسکتے ہیں:

ا- کہ نماز کا انتظار کرنا بھی شرعی طور پر نماز ہی کہلاتا ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے التماس کی کہ مجھے بتلاؤ یہ کونسی گھڑی ہے؟

تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے۔

پھر میں نے [اعتراض کرتے ہوئے] کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اسے پا لے) اور یہ وقت نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہے[کیونکہ اس وقت نفل نماز پڑھنا منع ہے]؟!

تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (جو شخص کسی جگہ بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے تو وہ اس وقت تک نماز میں ہے جب تک نماز ادا نہ کر لے)

ابو ہریرہ کہتے ہیں: میں نے کہا: بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔

تو عبد اللہ نے کہا: یہاں [نماز سے ] یہی مراد ہے۔

اسے ترمذی: (491) ، أبو داود: (1046) ، اور نسائی: (1430) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے "صحيح ابو داود" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ب- یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں "صلاۃ" کا لغوی معنی "دعا" مراد ہو۔

چنانچہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس سے معلوم ہوا کہ نماز سے مراد یہاں پر دعا ہے، اور قیام سے مراد دعا میں تسلسل اور ہمیشگی مراد ہے، حقیقتِ قیام یہاں مراد نہیں ہے"

"عمدة القاری شرح البخاری" (6/242)

چنانچہ یہاں حدیث کے الفاظ(وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي) کا معنی ہوگا: وہ شخص اپنے لئے دعا لازم کر لیتا ہے۔ [یعنی بڑے اہتمام کیساتھ دعا مانگتا ہے]

چنانچہ جو شخص جمعہ کے دن عصر کے بعد قبولیتِ دعا کی گھڑی تلاش کرنا چاہتا ہے اسکی متعدد صورتیں ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1- نمازِ عصر پڑھنے کے بعد مسجد سے باہر مت نکلے، اور دعا کرتا رہے، اور عصر کے وقت کے آخری لمحات میں زیادہ اہتمام سے دعا کرے، یہ سب سے اعلی ترین صورت ہے۔

اسی لئے سعید بن جبیر عصر کی نماز پڑھنے کے بعد سے لیکر سورج غروب ہونے تک کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔

2- کہ مغرب سے کافی دیر قبل مسجد میں چلا جائے، اور تحیۃ المسجد ادا کرے، اور وقتِ عصر کے آخری لمحات تک دعا کرتا رہے، یہ درمیانے درجے کی صورت ہے۔

3- کہ انسان گھر میں یا کہیں بھی بیٹھ کروقتِ عصر کے آخری لمحات میں دعا کرے، اور یہ نچلے درجے کی صورت ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"جو شخص جمعہ کے دن اللہ سے دعا کیلئے آخری گھڑی تلاش کرنا چاہتا ہو تو کیا اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے عصر کی نماز پڑھی تھی؟یا گھر میں ، یا کسی اور مسجد میں بھی دعا کرسکتا ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"اس کے بارے میں وارد شدہ احادیث مطلق ہیں[یعنی ان میں اس قسم کی کوئی قید نہیں ہے]، اور جس شخص نے قبولیت کی گھڑی میں دعا مانگی تو امید ہے کہ جمعہ کے دن آخری لمحات میں اس کی دعا قبول ہو گی، لیکن جو شخص مسجد میں مغرب کی نماز کیلئے انتظار بھی کرے تو یہ زیادہ مناسب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو) اسے بخاری نے روایت کیا ہے، چونکہ نماز کی انتظار کرنے والا بھی نمازی کے حکم میں ہوتا ہے، اس لئے [دعا کرنے والے شخص کا] نماز کی جگہ پر موجود ہونے سے قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، کیونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نمازی کے حکم میں ہوتا ہے، اور اگر وہ شخص مریض ہوتو اپنے گھر میں رہ کر قبولیت کی گھڑی تلاش کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور خواتین بھی گھر میں اپنی نماز والی جگہ بیٹھ کر مغرب کی نماز کا انتطار کریں، اسی طرح مریض بھی اپنی جائے نماز میں مغرب کا انتظار کرے، اور جمعہ کے دن عصر کے بعد اللہ سے دعا مانگے تو اسکے لئے بھی قبولیتِ دعا کی امید کی جاسکتی ہے، [قبولیت کی گھڑی تلاش کرنے کا]شرعی طریقہ کار یہی ہےکہ جب دعا کا ارادہ بنائے تو جس مسجد میں اس نے [مغرب کی]نماز پڑھنی ہے اس مسجد میں وقت سے پہلے جا کر بیٹھ جائے اور نماز کا انتظار کرتے ہوئے دعا کرے"انتہی

" فتاوى الشيخ ابن باز " ( 30 / 270 , 271 )

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں - محترم سائل- آپ جو کرتے ہیں دو طرح سے غلط ہے:

*ا- آپ نے حدیث سے یہ سمجھا کہ وہاں نماز سے مراد رکوع و سجود والی نماز مراد ہے، حالانکہ حدیث میں نماز سے مراد نماز کا انتظار ہے، یا اس وقت میں مسلسل دعا کرنا مراد ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

*ب- تحیۃ المسجد کی دوسری رکعت کے آخری سجدے کو لمبا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مخالف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار نماز میں یہ تھا کہ نماز کے سارے ارکان ایک دوسرے کے تقریبا برابر ہوتے تھے، اور سوال نمبر: (111889) کے جواب میں پہلے گزر چکا ہے کہ نماز میں آخری سجدے کو دعا کی وجہ سے لمبا کرنا نبوی راہنمائی سے متصادم ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب