الحمد للہ.
اول:
احرام کی حالت میں سر کے بالوں کو اتارنا منع ہے، چاہے بال اتارنے کیلئے منڈوانا، تراشنا، اکھڑنا، کھجانا وغیرہ کچھ بھی ہو؛ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
( وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ )
ترجمہ: اپنے سر کے بالوں کو مت منڈواؤ، یہاں تک کہ حج کی قربانی اپنی جگہ پہنچ جائے۔[البقرة:196]
اور تمام اہل علم کا اس حکم پر اتفاق ہے، اسی طرح اہل علم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر بالوں کو سنوارنے اور کنگھی کرنے سے بال ٹوٹنے کا یقین ہو تو یہ بالوں کو سنوارنا یا کنگھی کرنا بھی حرام ہوگا۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (11/179) میں ہے کہ:
"اگر احرام والے شخص کو کنگھی کی وجہ سے بال ٹوٹنے کا یقین ہو تو ایسی صورت میں فقہائے کرام کے ہاں کنگھی کرنا حرام ہے، اور سب فقہائے کرام اس پر متفق ہیں" انتہی
اور اگر بال سنوارنے کی وجہ سے بال نہیں گرتے تو اس بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:
1- کنگھی کرنا جائز اور مباح ہے، یہ ابن حزم ظاہری کا موقف ہے، ان کا "المحلى" (5/186) میں کہنا ہے کہ:
"احرام کی حالت میں بالوں کو کھولنا اور کنگھی کرنا مکروہ نہیں ہے، بلکہ ہر حالت میں مباح ہے" انتہی
کچھ اہل علم نے اس موقف کیلئے اس حدیث کو دلیل بنایا ہے جسے بخاری: (316) اور مسلم: (1211) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے، وہ کہتی ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ حجۃ الوداع میں احرام باندھا تھا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے ساتھ قربانی بھی نہیں لیکر گئے اور حج کے مہینوں میں حج سے پہلے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس دوران انہیں ماہواری شروع ہوگئی، اور عرفہ کی رات تک ماہواری سے رہیں، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آج عرفہ کی رات ہے، اور میں نے عمرے کی نیت کی ہوئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اپنے بال کھول دو، اور کنگھی کر لو، اور عمرے کے بقیہ مناسک مکمل مت کرو"
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو احرام کی حالت میں کنگھی کرنے کی اجازت دی، اور حج کے احرام کیلئے غسل کرنے کا حکم دیا؛ کیونکہ ابتدا میں ان کا احرام صرف عمرے کیلئے تھا۔
شوکانی رحمہ اللہ "نيل الأوطار" (5/94) میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : "کنگھی کر لو" اس بات کی دلیل ہے کہ احرام والے کیلئے کنگھی کرنا مکروہ نہیں ہے، اگرچہ کچھ اہل علم نے اسے مکروہ کہا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کچھ علمائے کرام نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا یہ عمل مجبوری کی وجہ سے تھا؛ کیونکہ ان کے سر میں تکلیف تھی اس لیے انہیں بھی کنگھی کرنے کی اجازت دی گئی جیسے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو سر میں تکلیف کی وجہ سے بال منڈوانے کی اجازت دی گئی تھی۔
کنگھی کرنے کے حکم کی توجیہ اس انداز سے بھی کی گئی ہے کہ : یہاں کنگھی کرنے سے مراد حقیقی کنگھی کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ حج کے احرام کیلئے غسل کرتے ہوئے ہاتھوں کی انگلیوں سے بالوں کو سیدھا کرنا مراد ہے، اور اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بالوں پر گوند لگائی ہوئی ہو تو بالوں کو انگلیوں سے کھولنا مزید اہمیت کا حامل ہو جائے گا، کیونکہ ایسی صورت میں سارے بالوں تک پانی پہنچانا لازمی ہے، اور اس کیلئے بالوں کو کھولنا ہی پڑے گا" انتہی
2- کنگھی کرنا حرام ہے، یہ موقف کچھ حنفی فقہائے کرام کا ہے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے دلیل اخذ کی ہے جس کے مطابق ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: "یا رسول اللہ ! حقیقی حاجی کون ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والا) ترمذی: (2998)
اہل علم کہتے ہیں کہ : پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں کا تقاضا ہے کہ انہیں کنگھی نہ کرے اور تیل وغیرہ استعمال نہ کرے۔
دیکھیں: "الاختيار لتعليل المختار" (1/143) ، "الموسوعة الفقهية" (11/179)
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کے بارے میں البانی رحمہ اللہ ضعیف سنن ترمذی میں کہتے ہیں کہ : "یہ روایت سخت ضعیف ہے"
3- کنگھی کرنا مکروہ ہے؛ کیونکہ کنگھی کرنے سے احرام میں ممنوع کام کے ارتکاب کا خدشہ ہے، یہ موقف شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔
چنانچہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (7/374) میں کہتے ہیں:
"سر اور ڈاڑھی کے بالوں میں کنگھی کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس سے بالوں کا اکھڑنے کا قوی اندیشہ ہے" انتہی
اور حنبلی فقیہ بہوتی رحمہ اللہ "كشاف القناع" (2/424) میں کہتے ہیں:
"محرم شخص اپنے سر اور بدن کو دھو سکتا ہے، یہ عمل عمر، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا ہے، اسی طرح علی اور جابر رضی اللہ عنہما سے اس کام کیلئے رخصت منقول ہے، لیکن انہوں نے کنگھی کرنے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ کنگھی کرنے سے بال ٹوٹنے کا خدشہ ہے" انتہی
اسی سے ملتا جلتا بیان "الإنصاف" (3/460) میں بھی ہے۔
آخری قول جس میں کنگھی کرنے کو مکروہ کہا گیا ہے معتدل اور بہترین قول لگتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو اپنی عبادت کا مکمل خیال کرنا چاہیے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جس کی وجہ سے عبادت میں نقص پیدا ہو چاہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "فتاوى نور علی الدرب" (فتاوى الحج والجہاد/ باب محظورات الإحرام) میں کہتے ہیں:
"احرام باندھے ہوئے شخص کو کنگھی نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ احرام باندھا ہوا شخص پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والا ہوتا ہے، لیکن غسل کر سکتا ہے، کنگھی کرنے کی وجہ سے بال گرنے کا خدشہ زیادہ ہو جاتا ہے " انتہی مختصراً
دوم:
اگر کوئی عورت یا مرد کنگھی کرے اور اپنے کنگھے میں اسے بال نظر آئیں لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کنگھی کرنے کی وجہ سے بال ٹوٹا ہے یا پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا تھا، تو ایسی صورت میں اسے فدیہ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ یہ احتمال موجود ہے کہ بال پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہو، اور محض احتمال اور شک کی وجہ سے فدیہ لازم نہیں آتا۔
یہ بات نووی رحمہ اللہ نے "المجموع" (7/262) میں اور اسی طرح "كشاف القناع" (2/423) میں بھی صراحت کیساتھ موجود ہے۔
واللہ اعلم.