سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اللہ تعالی کے اسم " المقدم اور المؤخر " کا معنی ۔

11366

تاریخ اشاعت : 22-07-2003

مشاہدات : 10308

سوال

اللہ تعالی کے اسم " المقدم اور المؤخر " کا معنی کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اللہ سبحہانہ وتعالی ہی ہے جوکہ کسی چیز کوبھی جس کا حکما اورفعلا مقدم کرنا ضروری ہوجس طرح اورجیسے اسے پسند ہو مقدم کرتا ہے ، اورجسے وہ مقدم کرے وہی مقدم اورجسے مؤخر کرے وہی مؤخر ہے ، وہ اللہ تبارک وتعالی جسے مؤخرکرنا ضروری ہو اسے مؤخر کرتا ہے ، پھر بھی ہے کہ اللہ تعالی جوبھی کرتا ہے اس میں اصلاح اور حکمت ہے اگرچہ ہم پر اس کی اصلا ح اور حکمت واضح نہ بھی ہو ۔

وہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہرایک چیز کو اس کے منزل ومرتبہ پر اتارتا اور جوچاہے مقدم کرے اورجو چاہے مؤخر کرے ، اس نے مخلوقات کوپیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی تقدیر کو مقدم کیا ، اور اپنے اولیاء میں سے جسے پسند فرمایا اسے اپنے دوسرے بندوں پر مقدم کردیا ، اورمرتبہ ودرجات کے اعتبار سے مخلوق کوایک دوسرے سے بلندی عطا کی ، اورکچھ کواپنی توفیق سے سابقین کا کے مقام ومرتبہ پر پہنچا دیا ، اور جس کوچاہا اس کے مرتبہ میں کمی کردی اور اسے مؤخر کردیا ، اور کسی چيز کو اس کے وقوع سے مؤخر کردیا کیونکہ اس کے علم میں اس کا انجام تھا اور اس میں کوئ حکمت پائ جاتی تھی ، تو اللہ تعالی جسے مؤخر کردے اسے کوئ مقدم کرنے والا نہیں اورنہ ہی جسے اللہ تعالی مقدم کردے اسے کوئ مؤخر کرسکتا ہے ۔

اورتقدیم دو چیزوں پر مشتمل ہے :

التقدیم الکونی : اورالتقدیم الشرعی ؛

تقدیم الکونی : مثلا ، مخلوقات میں سے بعض کی تقدیم ، اور اسباب کوان کے مسبب اورشروط ان کےمشروط سے مقدم کرنا ۔

اورتقدیم الشرعی : مثلا ، بعض انبیاء کی دوسرے انبیاء پر فضیلت ، اور انبیاء کی باقی ساری مخلوق پر فضیلت اوراسی طرح بندوں کی ایک دوسرے پر فضیلت ، تو یہ سب کچھ اللہ تعالی کی حکمت کے تابع ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

اور وہ اللہ تعالی ہی مقدم ومؤخر ہے ،تو یہ دونوں صفتیں افعال کی تابع ہیں ، اور یہ دونوں صفتیں ڈاتی ہیں جوکہ ذات کے علاوہ کسی غیر کے ساتھ قائم نہیں ۔ .

ماخذ: دیکھیں : کتاب شرح اسماء اللہ تعالی الحسنی صفحہ نمبر ( 218 ) - تالیف : ڈاکٹر حصۃ الصغیر