ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

خون کے نجس ہونے پر اجماع اور اس کے دلائل

سوال

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: درج ذیل چیزیں نجس ہیں: 1- آدمی کا بول وبراز، جبکہ چھوٹے بچے کا پیشاب ناپاک نہیں ہے، 2- کتے کا لعاب، 3- خشک پاخانہ، 4- حیض کا خون، 5- خنزیر کا گوشت۔ اس کے علاوہ جتنی بھی چیزیں ہیں وہ نجس نہیں ہیں چاہے وہ انسان کی نگاہ میں کتنی ہی گندی کیوں نہ ہوں؛ کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے ان کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہاں انہیں کھانے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ان کے پاک یا ناپاک ہونے کی بات ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ: انسان، جانور، اور مردار جانور کے خون کے نجس ہونے کی کیا دلیل ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ اس حوالے سے صحیح موقف کیا ہے؟ حالانکہ اس حوالے سے جس کا بھی موقف ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ موقف قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، میں کس موقف پر عمل کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام اہل علم کے متفقہ موقف کے مطابق بہنے والا خون نجس ہے، اس بارے میں کتاب و سنت کے صریح دلائل موجود ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

فرمانِ باری تعالی ہے:
قُل لاَّ أَجِدُ فِيمَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیں: جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں مجھے تو کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کر دی گئی ہو۔ ہاں جو شخص لاچار ہو جائے لیکن وہ نہ تو باغی ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو تو آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [الانعام: 145]

امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آیت میں مذکور لفظ رجس کا مطلب ہے: نجس اور گندگی" ختم شد
"جامع البيان" (8/53)

صحیح ثابت شدہ حدیث سے دلیل : سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: (ہم میں سے کسی کے لباس کو حیض کا خون لگ جاتا ہے تو اسے کیا کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے کھرچے اور پانی سے ملے، پھر اس پر پانی بہائے اور اسی میں نماز ادا کر لے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (227) اور مسلم : (291) نے روایت کیا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر باب قائم کیا ہے: "باب ہے: خون کو دھونے کے بارے میں" اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے باب کا عنوان یہ دیا ہے: "باب ہے خون کے نجس ہونے اور اسے دھونے کے طریقے کے بارے میں۔"

یہ حدیث اگرچہ حیض کے خون کے متعلق ہے، لیکن خون ، خون ہی ہوتا ہے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے چاہے جہاں سے بھی خارج ہو۔

خون کے نجس ہونے کے حکم میں اہل علم صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ اربعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے خون کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہا گیا: کیا خون اور پیپ آپ کے ہاں یکساں حکم رکھتے ہیں؟

تو انہوں نے کہا: "خون کے بارے میں تو لوگوں کا اختلاف نہیں ہے، لیکن پیپ کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔" ختم شد
"شرح عمدة الفقہ" از ابن تیمیہ: (1/105)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خون کے نجس ہونے کے دلائل بہت واضح ہیں، اس حوالے سے مجھے مسلمانوں میں سے کسی کے بھی اختلاف کا علم نہیں ہے، البتہ حاوی رحمہ اللہ نے چند متکلمین سے نقل کیا ہے کہ : خون پاک ہے، لیکن شافعی اور دیگر جمہور اصولی علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق متکلمین کے موقف کو اجماع اور اختلافی مسائل میں قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا ، خصوصاً فقہی مسائل میں۔" ختم شد

"المجموع" (2/576)

اہل علم کی بڑی تعداد نے ہر قسم کے خون کے نجس ہونے پر علمائے کرام کا اجماع نقل کیا ہے، جیسے کہ پہلے امام احمد اور نووی رحمہ اللہ کا ذکر گزر چکا ہے، اور ایسے ہی ابن حزم نے "مراتب الإجماع" (19) میں، ابن عبد البر نے "التمهيد" (22/230) میں، علامہ قرطبی نے "الجامع لأحكام القرآن" (2/210)میں، ابن رشد نے "بداية المجتهد" (1/79) میں اور ابن حجر نے "فتح الباري" (1/352) میں بیان کیا ہے، ان کے علاوہ بھی بہت سے اہل علم ہیں جنہوں نے اس کا یہی حکم ذکر کیا ہے۔

اس لیے عقلی اور شرعی ہر دو اعتبار سے بہتر یہی ہے کہ اسی موقف پر چلا جائے جسے اہل علم متواتر بیان اور ثابت کرتے چلے آئے ہیں، نیز یہ بھی کہ یہ موقف کتاب و سنت کی نص صریح پر مبنی ہے، چنانچہ علامہ شوکانی اور ان کے موقف پر چلنے والے اہل علم کا قول مرجوح ہے کیونکہ اس میں دلیل اور اجماع دونوں کی مخالفت ہے، اس لیے مناسب نہیں کہ اس موقف کو ذہنی اضطراب اور حیرانگی کا باعث بنایا جائے، اسی طرح اہل علم کے بارے میں یہ گمان کرنا بھی جائز نہیں ہے کہ اہل علم کسی مسئلے پر اجماع کر لیتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کوئی صریح دلیل بھی نہیں ہوتی، کچھ تشنگان علم خون کی نجاست اور دیگر کچھ مسائل میں یہی گمان کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب