الحمد للہ.
اول:
جس چیز کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
ترجمہ: اپنی جانوں کو قتل مت کرو؛ یقیناً اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے۔[النساء: 29]
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ) اس حدیث کو احمد، اور ابن ماجہ: (2341) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
جب یہ بات ثابت ہو کہ کوئی بھی کھانے یا پینے کی چیز جسم کو یقینی طور پر نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کھانا یا پینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر محض گمان یا بے دلیل دعوی ہی ہو تو پھر اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
کھانے پینے کی چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز بنائی ہے۔[البقرة:29]
اس لیے کسی بھی چیز کے بارے میں حرام ہونے کا موقف صحیح اور واضح دلیل کے بغیر نہیں اپنایا جا سکتا، چنانچہ محض گمان یا شبہات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
پھر اگر یہ بات ثابت ہو کہ ان مشروبات کی زیادہ مقدار جسم کو نقصان پہنچاتی ہے، اور اسی نقصان کی وجہ سے اس پر حرام ہونے کا حکم لگے تو پھر اس سے وہی مقدار حرام ہو گی جو نقصان دہ ہو، چنانچہ ان مشروبات کی قلیل مقدار حرام نہیں ہو گی، اہل علم یہ اصول ذکر کرتے ہیں کہ : "جس چیز کی کثیر مقدار نقصان دہ ہو تو اس کی قلیل مقدار حلال ہوتی ہے۔"
مزید کے لیے دیکھیں: "الإنصاف" (10/350) ، "كشاف القناع" (6/189)
اگر کوئی شخص ذاتی احتیاط کے طور پر ان مشروبات کو نہیں پینا چاہتا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کے لیے ان مشروبات کو واضح دلیل کی صورت میں ہی حرام کہنا ممکن ہے۔
واللہ اعلم