بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

پالتو جانور رکھنے کی شرائط

سوال

میری عمر 10 سال ہے، اور میں پالتو جانور رکھنا چاہتا ہوں، تو کیا اس کے لیے کچھ شرائط اور ضوابط ہیں؟ اور اگر ہیں تو برائے مہربانی واضح فرما دیں۔ شکریہ

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے اور ذہین و فطین آپ جیسے اپنے چھوٹی عمر کے بچوں سے سوالات موصول ہوں، یہ سوال بہت اہم بھی ہے اور مفید بھی ، پھر سوال کرتے ہوئے اختصار اور ادب دونوں ہی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، آپ کا خیال رکھے، اور آپ کی اچھی تربیت میں شریک تمام افراد کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔

دوم:

پالتو جانور رکھنا اور پالنا اسلام میں جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جیسے کہ بخاری: (6203) اور مسلم: (2150) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سب سے اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی جسے ابو عمیر کہتے تھے -راوی کہتے ہیں: ان کی عمر کے متعلق گمان ہے کہ ابھی دودھ چھڑوایا گیا تھا- جب بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تو آپ فرماتے تھے: (ابو عمیر! آپ کی نغیر [بلبل] نے کیا کیا؟ )بلبل کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا۔ نغیر چھوٹا سرخ چونچ والا پرندہ ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے بچے کا پرندے سے کھیلنا جائز ہے، اسی طرح والدین کے لیے بھی جواز ہے کہ وہ اپنے بچے کو جائز کھیل کھیلنے دیں، اسی طرح چھوٹے بچوں کے کھیلنے کے لیے جائز کاموں پر پیسے کرنا بھی جائز ہے، پرندے کو پنجرے وغیرہ میں قید رکھنا بھی جائز ہے، پرندے کے پر کاٹنا بھی جائز ہے؛ کیونکہ ابو عمیر کے لیے پرندے کو روکنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں، تو ابو عمیر نے ان میں سے کوئی بھی طریقہ اپنایا ہو دوسرا طریقہ بھی وہی حکم رکھے گا۔" ختم شد
" فتح الباری" (10/584)

جانوروں کو پالنے کی چند شرائط اور ضوابط درج ذیل ہیں:

1-کتا پالتو جانور کے طور پر نہ پالا جائے؛ کیونکہ اسلام نے کتے پالنے کو حرام قرار دیا ہے، صرف چوکیداری اور شکار کے لیے اجازت دی ہے، اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (69777 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔ اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3225) اور مسلم : (2106) نے روایت کیا ہے۔ تو کیا کوئی مسلمان یہ پسند کرے گا کہ کسی جانور کو پالنے کی وجہ سے گھر میں رحمت کے فرشتے نہ آئیں؟

2- جانور پالتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کریں کہ معاملہ قابل مذمت فضول خرچی تک پہنچ جائے، ہم نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ کسی مخصوص جانور کو خریدنے ، پالنے اور اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کئی ملین رقم خرچ کر دیتے ہیں، اور کچھ تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ اپنی ملکیت میں سے جانور کے لیے وصیت بھی کر دیتے ہیں، کچھ ممالک میں پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ میلے منعقد کیے جاتے ہیں اور اس کے لیے خطیر رقوم خرچ کی جاتی ہیں، ایسی تمام سرگرمیاں بیوقوفی اور کم عقلی ہیں۔

3- پالتو جانور کا مکمل خیال رکھیں، چنانچہ اگر کوئی مسلمان پالتو جانور پالے تو اس کے کھانے پینے کا مکمل خیال رکھے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے، اسے نشانہ بازی کا ہدف نہ بنائے، جانور لڑانے کے لیے نہ پالے، اسی طرح جانور کو سردی یا گرمی میں مت رکھے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ تو اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس میں اتر گیا اور پانی پی لیا۔ پھر جب باہر آیا تو اس نے ایک کتے کو دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی شدت سے گیلی مٹی کھا رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی قدر فرمائی ۔ اور اس کی مغفرت فرما دی۔ )اس پر صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ کیا جانوروں میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ہاں، ہر زندہ جگر والے جانور میں اجر ملتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2466) اور مسلم : (2244) نے روایت کیا ہے۔

آپ ملاحظہ کریں کہ کس طرح مومن شخص کو ایک جانور کا خیال رکھنے کی وجہ سے اجر دیا گیا، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مومن کسی ایک جانور کا خیال رکھنے کی وجہ سے جنت میں چلا جائے، جیسے اس حدیث میں مذکور شخص کے ساتھ ہوا ہے، اللہ تعالی ویسے بھی حسن سلوک کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک ایسی عورت کے بارے میں بھی بتلایا جس نے ایک بلی کا خیال نہیں رکھا اور وہ بلی بھوک کی وجہ سے مر گئی، نہ تو عورت نے خود اسے کوئی چیز کھانے کو دی اور نہ ہی بلی کو چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14422 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب