الحمد للہ.
اول:
آپ نے اپنے دينى معاملہ ميں سوال كر كے بہت اچھا كيا ہے اور پھر اپنى معاش كے اچھا اور پاكيزہ ہونے كے بارہ ميں بھى دريافت كرنا اچھى چيز ہے، اسى طرح نيك و صالح خاوند كى حرص ركھنا بھى، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے ان امور ميں آسانى پيدا فرمائے.
دوم:
ٹى وى پر انعامى پروگرام اس طريقہ پر پيش كرنا جو آپ نے بيان كيا ہے كہ اس ميں مرد و عورت كا اختلاط اور گانے اور موسيقى شامل ہے يہ حرام اور حلال دونوں پر مشتمل ہے، اس ميں خير اور شر دونوں موجود ہيں؛ كيونكہ مرد و عورت كے اختلاط اور موسيقى و گانے بجانے اور عورتوں كى تصاوير كى حرمت ثابت ہے.
اور جو چيز حرام ہو اسے پيش كرنا اور اس ميں معاونت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرو، اور برائى و شر اور گناہ و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى بڑے شديد عذاب والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اور ارشاد بارى تعالى ہے:
يقينا وہ لوگ جو مومنوں ميں فحاشى پھيلانا پسند كرتے ہيں ان كے ليے دنيا اور آخرت ميں المناك عذاب ہے، اور اللہ تعالى جانتا ہے تم نہيں جانتے النور ( 19 ).
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہدايت كى طرف راہنمائى كى تو اسے اس پر عمل كرنے والے جتنا اجرملےگا، اور ان كے اجروثواب ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى، اور جس نے كسى گمراہى كى طرف راہنمائى كى تو اس پر عمل كرنے والا كا بھى گناہ ہے ان كے گناہ ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 4831 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 1200 ) اور ( 5000 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
حرام كام پر حاصل ہونے والى كمائى اسى قدر حرام ہے جس قدر وہ كام تھا.
رہا معاملہ انعامى مقابلوں كا تو اس ميں كچھ تو مباح ہيں اور كچھ حرام، جن انعامى مقابلوں ميں شريك ہونے والا شخص شريك ہونے كے ليے مال ادا كرتا ہے چاہے وہ كال كرنے كى قيمت ہى كيوں نہ ہو؛ تو يہ حرام ہونگے، اور يہ جوا اور قمار بازى كى ايك قسم كہلاتى ہے.
پھر يہ كسى پر مخفى نہيں كہ اس ماحول ميں ملازمت كرنے ميں كئى اور بھى برائياں پائى جاتى ہيں، كيونكہ يہاں مرد و عورت كا اختلاط پايا جاتا ہے، اور وہاں ايسے لوگ ہوتے ہيں جن كے بارہ ميں ظن غالب يہى ہے كہ وہ فاسق و فاجر ہيں اور دين ميں كمى ركھتے ہيں.
اس ليے اس نوجوان كو نصيحت كريں، اگر تو وہ نوجوا نتوبہ كر كے يہ ملازمت ترك كر ديتا ہے، اور كوئى مباح اور جائز ملازمت كرتا ہے تو پھر اس سے شادى كرنے ميں كوئى مانع نہيں.
ليكن اگر وہ يہى ملازمت جارى ركھتا ہے تو پھر اس نوجوان ميں كوئى خير نہيں؛ كيونكہ اس كے مال ميں حلال و حرام دونوں مختلط ہيں، اور ارد گرد كے ماحول ميں گھرے ہونے كى بنا پر خدشہ ہے كہ وہ بھى كمزور ہو كر وہى كام كرنے لگےگا.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا فرمائے.
واللہ اعلم .