الحمد للہ.
موزوں يا جرابوں پر مسح كرنے كى ابتدا پہلا مسح كرنے سے شروع ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9640 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
رہا مسح كرنے كا طريقہ تو وہ درج ذيل ہے:
ہاتھوں كى گيلى انگليوں كو پاؤں كى انگليوں پر ركھ كر اوپر پنڈلى كى جانب پھيرا جائے، دائيں ہاتھ سے دائيں پاؤں اور بائيں ہاتھ سے بائيں پاؤں كا مسح كيا جائيگا، اور مسح كرتے وقت انگلياں كھلى ہوں اور مسح صرف ايك بار ہى كيا جائے.
ديكھيں: الملخص الفقھى للفوزان ( 1 / 43 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يعنى مسح موزے كے اوپر والى جانب كيا جائيگا، چنانچہ وہ اپنا ہاتھ صرف پاؤں كى انگليوں سے پنڈلى كى طرف پھيرے، اور مسح دونوں ہاتھوں سے دونوں پاؤں پر كيا جائيگا، يعنى جس طرح كانوں كا مسح كيا جاتا ہے اسى طرح دائيں ہاتھ سے دائيں پاؤں اوراسى وقت بائيں ہاتھ سے بائيں پاؤں كا مسح كرے، كيونكہ سنت سے يہى ظاہر ہوتا ہے.
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كا فرمان ہے:
" چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان دونوں پر مسح كيا "
انہوں نے يہ نہيں كہا كہ پہلے دائيں سے ابتدا كى، بلكہ يہ كہا كہ دونوں پر مسح كيا، چنانچہ سنت كا ظاہر يہى ہے، ہاں اگر يہ فرض كريں كہ اس كا ايك ہاتھ كام نہيں كرتا تو پھر وہ بائيں پاؤں سے قبل دائيں پاؤں كا مسح كر سكتا ہے.
بہت سے لوگ دونوں ہاتھ سے دائيں پاؤں اور پھر دونوں ہاتھوں سے بائيں پاؤں پر مسح كرتے ہيں، يہ ايسا عمل ہے ميرے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى....
كسى بھى طريقہ پر مسح صرف موزوں كے اوپر ہى كرنا ہى كافى ہے، ليكن ہمارى يہ كلام تو افضليت كے متعلق تھى، كہ افضل كيا ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 1 / 250 ).
موزوں كى دونوں سائڈيں اور اگلى پچھلى جانب مسح نہيں كيا جائيگا كيونكہ اس سلسلے ميں كچھ بھى وارد نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كوئى قائل يہ كہہ سكتا ہے كہ: معاملہ كا ظاہر تو يہى ہے كہ موزے كى نچلى جانب كا مسح كرنا زيادہ بہتر ہے، كيونكہ مٹى اور گندگى ميں تو وہى حصہ لگتا ہے، ليكن جب ہم اس پر غور و فكر كرتے ہيں كہ تو ہميں يہى پتہ چلتا ہے كہ موزے كى اوپر والى جانب ہى مسح كرنا اولى ہے، اور عقل بھى اسى پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ اس مسح سے مراد صفائى نہيں بلكہ اس سے تو عبادت مراد ہے، اور اگر ہم موزے كے نچلى جانب مسح كريں تو يہ اس كے گندہ ہونے كا باعث بنے گا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ شيخ ابن عثيمين كى كتاب: الشرح الممتع ( 213 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .