منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

يوم عاشوراء يا يوم عرفہ اور قضاء رمضان كو جمع كرنا

سوال

كيا يہ ممكن ہے كہ سنت روزے رمضان كى قضاء كى نيت سے ركھے جائيں، اور اسى طرح نفلى روزے مثلا يوم عاشوراء كا روزہ رمضان كى قضاء كى نيت سے ركھا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ عبادات ميں شركت يا تداخل كے نام سے پہچانا جاتا ہے، اور اس كى بہت سارى صورتيں ہيں جن ميں يہ صورت بھى شامل ہے كہ واجب اور مستحب كو ايك ہى نيت ميں جمع كيا جائے، چنانچہ جس نے مستحب روزے كى نيت كى تو وہ روزہ واجب اور فرض روزے سے كافى نہيں ہوگا، لہذا جس نے عاشوراء كى نيت سے روزہ ركھا تو يہ قضاء رمضان كے روزے ميں كافى نہيں ہوگا.

اور جس نے رمضان كے قضاء كے روزے كى نيت سے روزہ ركھا اور يہ عاشوراء والے دن ركھے تو يہ قضاء رمضان كا روزہ تو صحيح ہوگا، ليكن اسے عاشوراء كا روزہ نہيں كہا جائيگا، بعض اہل علم كے ہاں يہ اميد ركھى جا سكتى ہے كہ اس سے عاشوراء كے روزے كا بھى ثواب حاصل ہوگا.

الرملى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر وہ شوال ميں قضاء رمضان يا پھر نذر وغيرہ كے روزے ركھے، يا اسى طرح يوم عاشورا ميں ت واسے اس كے نفلى روزے كا بھى ثواب حاصل ہوگا، جيسا كہ والد رحمہ اللہ نے بارزى اور اصفوانى اور الناشرى اور فقيہ على بن صالح الحضرمى وغيرہ كے متابعت كرتے ہوئے فتوى ديا ہے.

ليكن اس سے وہ كامل اور مطلوبہ ثواب حاصل نہيں ہوگا جو اكيلا عاشوراء كا روزہ ركھنے كا ثواب ہے، خاص كر جب رمضا المبارك كے روزے رہتے ہوں اور وہ شوال ميں روزے ركھے " انتہى

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 3 / 208 ).

اور مغنى المتحاج ( 2 / 184 ) اور حواشى تحفۃ المتحاج ( 3 / 457 ) ميں بھى اسى طرح درج ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے يوم عرفہ يا يوم عاشوراء كا روزہ ركھا اور اس كے ذمہ رمضان المبارك كى قضاء بھى ہو تو اس كا روزہ صحيح ہے، ليكن اگر وہ اس دن قضاء رمضان كے روزے كى نيت كرتا ہے تو اسے دونوں اجر يوم عرفہ اور يوم عاشوراء كے ساتھ قضائے رمضان كے روزے كا بھى اجر ملےگا.

يہ تو صرف نفلى روزے كے متعلق ہے جو رمضان المبارك گے سا تھ مربوط نہيں، ليكن شوال كے چھ روزے تو رمضان المبارك كے ساتھ مرتبط ہيں اور يہ رمضان المبارك كے روزے مكمل ہونے كے بعد ہى ہونگے.

اس ليے اگر كوئى شخص رمضان كے روزوں كى قضاء سے قبل ہى شوال كے روزے ركھتا ہے تو اسے شوال كے چھ روزوں كا اجر حاصل نہيں ہوگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارے سال كے ہى روزے ركھے "

يہ معلوم ہے كہ جس كے ذمہ رمضان كے روزوں كى قضاء ہو اسے تو رمضان كے سارے روزے ركھنے والا شمار ہى نہيں كيا جائيگا، حتى كہ وہ رمضان كے روزے مكمل كر لے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الصيام ( 438 ).

اس ليے انسان كو اپنے ذمہ روزوں كى قضاء كى ادائيگى كرنے ميں جلدى كرنے چاہيے، كيونكہ يہ نفلى روزوں سے اولى ہيں، ليكن اگر اس كے ليے وقت تنگ ہو اور وہ قضاء كے سارے روزے نہ ركھ سكے اور اسے خدشہ ہو كہ اگر وہ قضاء كے سارے روزے ركھےگا تو ايك فضيلت والے دن كے روزے كا اجروثواب حاصل نہيں كر سكےگا مثلا يوم عاشوراء يا يوم عرفہ تو وہ اس دن قضاء كى نيت سے روزہ ركھ لے، اميد ہے كہ اسے يوم عاشوراء اور يوم عرفہ كا اجروثواب بھى حاصل كر سكےگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فضل و كرم تو بہت وسيع ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب