الحمد للہ.
مسلمان شخص کو اپنی ہر قسم کی ضروریات میں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہیے یہ مسلمان کے ایمان کی علامت ہے، جبکہ تلاشِ معاش اور روز گار کے حوالے سے اللہ تعالی پر توکل کرنا انتہائی ضروری ہے۔
امام ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صاحب عقل شخص پر واجب ہے کہ اس ذات پر توکل کرے جس نے روزی روٹی کی ذمہ داری پہلے سے لی ہوئی ہے؛ کیونکہ ایمانیات میں توکل کا مقام ایسے ہی ہے جیسے موتیوں کی لڑی میں دھاگے کا ہے، توکل اور عقیدہ توحید دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، توکل کی موجودگی میں غربت کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ انسان راحت محسوس کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالی پر صدق دل سے اس طرح توکل کرے کہ ہاتھ میں موجود چیز پر اعتماد کی بجائے؛ الٰہی ضمانت اور کفالت کی وجہ سے صرف اللہ تعالی پر توکل کرے؛ تو اللہ تعالی اسے کسی مخلوق کے سپرد نہیں کرتا، بلکہ اسے خود وہاں سے روزی روٹی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
مجھے منصور بن محمد کریزی نے اشعار سنائے:
توكلْ على الرحمن في كلِّ حاجةٍ ... أردتَّ فإن الله يقضي ويَقْدُرُ
اپنی ہر ضرورت میں رحمن پر توکل کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی ہی فیصلے کرتا ہے اور قدرت رکھتا ہے۔
متى ما يُرِدْ ذو العرش أمراً بعبده ... يُصِبْه ، وما للعبد ما يتخَيَّر
جب عرش والا اپنے بندے کے لیے کسی چیز کا ارادہ کر لے تو اسے عطا کرتا ہے، اس میں بندے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
وقد يَهلك الإنسانُ من وجه أَمْنِه ... وينجو بإذن الله من حيث يَحْذَر
کبھی انسان ایسی جگہ بھی مار کھا جاتا ہے جسے پر امن سمجھتا ہے، اور کبھی اللہ کے حکم سے ایسی جگہوں سے بھی نجات پا جاتا ہے جنہیں نہایت خطرناک سمجھتا ہے۔" ختم شد
" روضة العقلاء ونزهة الفضلاء " ( ص 153 ، 154 )
دورانِ تجارت اللہ تعالی پر توکل کے لیے انسان درج ذیل امور پر توجہ مرکوز رکھے:
1-اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کی روزی؛ ازل میں ہی تقسیم کر دی تھی۔
جیسے کہ ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صاحب عقل و خرد یہ جانتا ہے کہ رزق کے معاملات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے، روزی روٹی کی ضمانت اللہ تعالی نے اس طرح دی ہوئی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان کی ضرورت کے وقت عنایت فرمائے گا۔ جس چیز کی ضمانت دے دی گئی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے یقین دہانی بھی ہے تو اسے حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا عزم و حزم رکھنے والوں کا شیوہ نہیں ہے؛ ہاں اگر کوشش کرنی بھی ہے تو اس نظریے سے کہ اگر وہ کچھ بھی نہ کرے تو تب بھی اسے رزق غیر متوقع جگہوں سے مل کر رہے گا۔" ختم شد
" روضة العقلاء ونزهة الفضلاء " ( ص 155 )
2-حصولِ رزق کے لیے اللہ تعالی کے علاوہ تمام سے امیدیں توڑ دے۔
ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"توکل یہ ہے کہ: دل کا تعلق تمام خلقت سے کاٹ کر ایسی ذات کے سامنے پیش کر دیا جائے جو ہر قسم کے حالات کو بدلنے پر قادر ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ صدق دل سے توکل کی حالت میں انسان دنیاوی طور پر بالکل پر سکون ہو؛ یہ تب ہو گا جب غربت اور ثروت دونوں انسان کے ہاں یکساں ہوں دونوں میں کوئی فرق نہ کرے، ثروت ہو تو شکر کرے، اور غربت ہو تو راضی رہے۔ بصورتِ دیگر یعنی اگر توکل نہ ہو تو انسان کچھ بھی کر لے دنیا میں سکون حاصل نہیں کر سکتا؛ کیونکہ اس کے ہاں غربت کے مقابلے میں ثروت ہی سب کچھ ہے، یہ شخص غربت میں راضی نہیں ہوتا اور ثروت میں اپنے مقام کا شکر نہیں بجا لاتا۔" ختم شد
" روضة العقلاء ونزهة الفضلاء " ( ص 156 )
3-تلاش معاش کے لیے سر گرداں شخص کا دل اللہ تعالی پر مکمل بھروسا رکھے، تلاش معاش کے اسباب بھی اپنائے اور جد و جہد بھی کرے۔
توکل میں اسباب اپنانا بھی شامل ہے، اس کی دلیل ابو تمیم جیشانی کی روایت میں ہے، آپ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم اللہ تعالی پر کما حقہ توکل کرو تو تمہیں بھی اسی طرح رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، کہ صبح خالی پوٹوں کے ساتھ جاتے ہیں اور شام کو بھرے ہوئے پوٹوں کے ساتھ واپس آتے ہیں۔) اس روایت کو امام ترمذی: ( 2344 ) اور ابن ماجہ: ( 4164 ) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسباب اپناتے ہوئے جد و جہد کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے روایت پیش کی کہ (اگر تم اللہ تعالی پر کما حقہ توکل کرو تو تمہیں بھی اسی طرح رزق دیا جائے ۔۔۔) تو اس حدیث میں پرندوں کا تلاش رزق کے لیے صبح جانا اور شا م کو واپس آنا ذکر ہوا ہے جو کہ تلاش رزق کے لیے جد و جہد کی دلیل ہے، پرندے اللہ تعالی پر توکل بھی کرتے ہیں کیونکہ چیزوں کو حقیقی معنوں میں تمہارے تابع کرنے والا، آسانی کرنے والا اور اسباب پیدا کرنے والا تو صرف اللہ تعالی ہی ہے۔" ختم شد
" تفسیر ابن کثیر" ( 8 / 179 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بندے کو ہمیشہ صرف اللہ تعالی پر بھروسا کرنا چاہیے اسباب میں سے کسی بھی سبب پر بھروسا بالکل نہ ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہی ہے جو دنیا و آخرت میں کام آنے والے اسباب مہیا فرماتی ہے ۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 8 / 528 )
ایسے ہی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"توکل میں دو چیزیں یکجا ہونا ضروری ہیں: سب سے پہلے اللہ تعالی پر مکمل بھروسا، اس بات کا یقین کہ اسباب پیدا کرنے والی ذات وہی ہے، اللہ تعالی کے تقدیری فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں، اللہ تعالی ہی تمام معاملات کی قدرت رکھتا ہے، اسی نے ہی انہیں لکھا ہوا ہے۔
دوسری بات : توکل میں اسباب بھی اپنائیں؛ کیونکہ اسباب کے بغیر توکل نہیں ہوتا، توکل میں اسباب بھی اپنائے جاتے ہیں اور بھروسا صرف اللہ تعالی کی ذات پر ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اسباب نہیں اپناتا تو وہ عقل و شریعت دونوں سے متصادم عمل کر رہا ہے۔" ختم شد
" فتاوى الشيخ ابن باز " ( 4 / 427 )
اس مسئلے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی تفصیلی گفتگو پڑھنے کے لیے آپ سوال نمبر: (118262) کا جواب ملاحظہ کریں۔
4- اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھیں، کثرت دعائیں کریں، اور اللہ تعالی سے مانگیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزی روٹی کے معاملے میں اگر کوئی شخص پریشان ہے تو اللہ تعالی سے ضرور مانگے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک حدیث قدسی میں منقول ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (جب تک میں نہ کھلاؤں تو تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے ؛اس لیے مجھ سے روزی طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! جب تک میں نہ پہناؤں تو تم میں سے ہر ایک برہنہ ہے؛ لہذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔)مسلم"
سوال نمبر: (21575) میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس حوالے سے نہایت وقیع گفتگو بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم