جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کیلئے شکرانے کے دو نفل پڑھنا جائز ہے؟

131657

تاریخ اشاعت : 11-02-2015

مشاہدات : 24050

سوال

کیا کسی خوشی کے حاصل ہونے پر اللہ کیلئے شکرانے کے دو نفل ادا کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حصولِ نعمت یا زوال نقمت پر سجدہ شکر کرنا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپکے صحابہ کرام سے ثابت شدہ سنتوں میں سے ہے۔

اس کا تفصیلی بیان سوال نمبر: (5110) کے جواب میں پہلے گزر چکا ہے۔

جبکہ شکرانے کے دو نوافل کے متعلق اہل علم کی دو مختلف رائےہیں:

چنانچہ کچھ اہل نے حصول نعمت پر شکرانے کے دو نفل ادا کرنے کو مستحب کہاہے، اور اس کے مستحب ہونے کیلئے جن دلائل کا سہارا لیا ہے وہ یہ ہیں:

1-    امام حاکم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس وقت کعب بن مالک اور انکے رفقاء کی توبہ قبول ہوئی تو کعب بن مالک کو  دو نفل پڑھنے کا حکم دیا۔ اسے حاکم نے  "المستدرك على الصحیحین" (5/148) میں روایت کیا ہے۔

لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں : " یحیى بن المثنى " ہے۔
اس کے بارے میں عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: " حديثه غير محفوظ ، ولا يعرف بالنقل " یعنی: اسکی احادیث غیر محفوظ ہیں، اور روایت کرنے میں معروف بھی نہیں ہے۔ انتہی
"الضعفاء الكبیر" (4/ 432)

2- ابن ماجہ (1391) نے سلمہ بن رجاء کی سند سے بیان کیا ہے کہ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو جہل کے قتل ہونے کی خوشخبری سن کر دو رکعت نماز  ادا کی"

اس حدیث کو ابن حجر اور ابن ملقن جیسے کچھ علمائے کرام نے حسن کہا ہے، دیکھیں: "البدر المنير" (9 /106)  ، تلخيص الحبير (4 /107)

لیکن بوصیری رحمہ اللہ  کہتے ہیں: "اس حدیث کی سند میں کلام ہے، اس کی سند میں "شعثاء بنت عبد اللہ" کے بارے میں کسی نے جرح یا توثیق بیان نہیں کی"

جبکہ سند میں موجود "سلمہ بن رجاء" کو ابن معین نے ضعیف کہا ہے، ابن عدی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ: " حَدَّثَ بِأَحَادِيث لَا يُتَابَع عَلَيْهَا "یعنی: ایسی احادیث بیان کرتا ہے جن  کی متابعت نہیں ملتی، امام نسائی کہتے ہیں کہ : "ضیعف"ہے، دارقطنی کہتے ہیں: " يَنْفَرِد عَنْ الثِّقَات بِأَحَادِيث " ثقہ راویوں سے انوکھی احادیث بیان کرتا ہے، ابو زرعہ کہتے ہیں: "صدوق"، ابو حاتم کہتے ہیں: " مَا بِحَدِيثِهِ بَأْس " یعنی: اس کی احادیث میں کوئی  مضائقہ نہیں ہے۔
"مصباح الزجاجۃ" (1 / 211)

اسی طرح شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف قرار دیا ہے۔

3- نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر آٹھ رکعات نماز پڑھی، اور ان کے بارے میں بہت سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ آٹھ رکعات اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے تھیں۔

چنانچہ اس بارے میں محمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل ہونے پر شکرانے کیلئے نوافل یا سجدہ کیا جاتا ہے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا وہ واقعہ بھی شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  فتح مکہ کے موقع پر غسل فرمایا، اور شکرانے کے طور پر آٹھ رکعات ادا فرمائیں"انتہی
" تعظيم قدر الصلاة" (1 /240)

اور حافط ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس واقعہ میں نمازِ شکر  پڑھنے کا جواز پایا جاتا ہے"انتہی
" فتح الباری " (3 / 15)

لیکن اس حدیث سے شکرانے کے نوافل پر  استدلال دو طرح سے  محلِ نظر  ہے:

1. یہ نوافل فتح  کے ساتھ خاص ہیں، اس لئے خوشی کے تمام حالات اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہ دشمن پر فتح یابی کی وجہ سے نماز شکرانہ تھی"انتہی
" البداية والنهاية " (1 / 324)

اور اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"سلف کسی شہر  کے فتح  ہونے پر امیر  کی طرف سے شکرانے کے لئےآٹھ رکعت پڑھنا  مستحب جانتے تھے"انتہی
" مجموع الفتاوى" (17 / 474)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس(فتح مکہ) کے بعد ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر  آئے، وہیں پر آپ نے غسل فرمایا، اور آٹھ رکعات  چاشت کے وقت میں ادا کیں، تو کچھ نے اسے چاشت کی نماز  سمجھ لیا، حالانکہ یہ فتح یابی کی نماز تھی۔
اسلامی حکمران جب کبھی کسی قلعے یا شہر کو فتح کرتے تو اس فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا کرتے ہوئے یہی نماز پڑھا کرتے تھے۔

اس قصہ میں یہ قرینہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس نماز کا سبب فتح مبین پر اللہ کا شکر ادا کرنا تھا، کیونکہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "میں نے آپکو اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ نماز پڑھتے ہوئےکبھی نہیں دیکھا"انتہی
" زاد المعاد " (3 /361)

2. ام ہانی بنت ابی طالب نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، اور وہ خود اس حدیث کے الفاظ میں کہتی ہیں کہ : "یہ چاشت کی نماز تھی" لیکن یہ بات ابن قیم کی گذشتہ بات سے متصادم ہے۔

چنانچہ مسلم: (336)نے  ام ہانی رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ: "فتح مکہ کے سال وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس مکہ کی بالائی جانب آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  غسل فرمانے لگے، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کیا، پھر آپ نے اپنا کپڑا لیکر  اسے اپنے اوپر ڈال لیا، اور پھر آٹھ رکعات چاشت کی نماز کیلئے ادا فرمائیں"

نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ:
"ام ہانی کا یہ کہنا کہ: " پھر آٹھ رکعات چاشت کی نماز کیلئے ادا فرمائیں " اس میں ایک دقیق نکتہ ہے ، وہ یہ کہ چاشت کی یہ نماز آٹھ رکعات  پر مشتمل تھی، کیونکہ انہوں نے واضح لفظوں میں اسے چاشت کے نوافل قرارد یا، اور یہ اس بات کی صراحت بھی ہے کہ  یہ چاشت کی نماز کا معروف طریقہ تھا، اور آپ نے آٹھ رکعات چاشت کی نیت سے پڑھی تھیں، جبکہ دوسری روایت میں الفاظ کچھ اور ہیں: "آپ نے چاشت کے وقت میں آٹھ رکعات پڑھیں" اس حدیث کے الفاظ سے کچھ لوگوں نے غلط فہم اخذ کیا کہ اس حدیث میں چاشت کی آٹھ رکعات ہونے کی دلیل نہیں ہے، انکا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کی وجہ سے اس وقت میں آٹھ رکعات پڑھی تھیں، لیکن انکا یہ خیال حدیث کے ان الفاظ سے بالکل ختم ہو جاتا ہے کہ یہ آٹھ رکعات"چاشت کے نوافل "  تھے۔

شروع سے اب تک لوگ اس حدیث کو چاشت کی نماز کیلئے آٹھ رکعات کی دلیل بناتے آئے ہیں، واللہ اعلم، نوافل کو عربی میں "سُبحَہ" بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس میں تسبیح بھی ہوتی ہے"انتہی

مندرجہ بالا بیان کی بنیاد پر اکثر علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ "صلاۃ الشکر" یا شکرانے کے نوافل جائز نہیں ہیں۔

رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے لئے ایسی کوئی نماز نہیں ہے جسے صلاۃ الشکر کہا جائے"انتہی
" تحفۃ المحتاج " (3 / 208)

اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"مجھے نمازِشکرانہ کے بارے میں کسی دلیل کا علم نہیں ہے، البتہ سجدہ شکر کے بارے میں دلائل ہیں"انتہی
"مجموع الفتاوى " (11 /424)

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ذخیرہ احادیث میں کسی نماز کا نام نمازِ شکرانہ ہو  میرے علم میں نہیں ہے، البتہ احادیث میں سجدہ شکر  ہے"انتہی
" فتاوى نور على الدرب" (6 / 17)

اور ایک جگہ یہ بھی کہا کہ:
"شکر کیلئے قیام و رکوع پر مشتمل  نماز نہیں ہے، بلکہ شکر انے کیلئے سجدہ شکر ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (6 / 18)

اس لئے ایک مسلمان  کو ملنے والی خوشی کے موقع پر شرعی عمل یہ ہے کہ وہ اللہ کیلئے سجدہ شکر بجا لائے، لیکن  شکرانے کے نوافل بے بنیاد ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات