سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

علی بن ابی طالب رضي اللہ عنہ کے فضائل اوران کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص ۔

13333

تاریخ اشاعت : 26-06-2003

مشاہدات : 7778

سوال

علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ کو صلی اللہ علیہ وسلم کہنے کے بارہ میں کیا حکم ہے اورکیا یہ صحیح ہے کہ نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیاگيا :

ایک شخص کےبارہ میں جس نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اہل بیت میں سے نہیں اوران پردرود پڑھنا صلی اللہ علیہ وسلم کہنا جائز نہيں ، ان کے لیے یہ کہنا بدعت ہے ؟

توشیخ الاسلام کا جواب تھا :

علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اہل بیت میں سے ہیں اس میں مسلمانوں کےدرمیان کوئ اختلاف نہيں پایا جاتا ، مسلمانوں کا ہاں اس طرح ظاہر ہے کہ اس پردلیل کی بھی کوئ ضرورت نہيں ، بلکہ علی رضي اللہ تعالی عنہ اہل بیت میں سے سب سے افضل ہيں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنوھاشم میں سب سے افضل ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرعلی اورفاطمہ اورحسن ، اورحسین رضي اللہ تعالی عنہم پرڈال کرفرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی دورکردے اورانہیں اچھی طرح پاک کردے ۔

اوررہا یہ مسئلہ کہ صرف علی رضي اللہ تعالی عنہ کواللھم صلی علی علی رضی اللہ تعالی عنہ کہنا ، توکیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکوانفرادی طورپرکہتا ہے ؟ کہ اللہم صلی علی عمر یا علی علی رضي اللہ تعالی عہنم ۔

علماء کرام اس مسئلہ میں تنازع کا شکار ہیں ، امام مالک اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی اورحنابلہ میں سے ایک گروہ کا قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کوانفرادی طور پرصلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جاسکتا ۔

جس طرح کہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا مجھے اس کا علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورپربھی صلاۃ وسلام ضروری ہے ۔

امام احمد اوران کے اکثراصحاب کا کہنا ہے کہ اس میں کوئ حرج نہیں ، اس لیے کہ علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ نے عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کوکہا تھا صلی اللہ علیک ، لھذا یہ قول اولی اوراصح ہے ۔

لیکن صحابہ کرام میں سے کسی ایک کوانفرادی طورپرمثلا علی رضي اللہ تعالی عنہ یا کسی اورکو باقی سب صحابہ کوچھوڑ کر صرف اس ایک ہی پرصلاۃ بھیجنا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری ہے اس لیے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعار بن چکا ہے اوران کے نام کے ساتھ کہنا معروف ہے تواب کسی اور کے لیے یہ کہنا بدعت شمارہوگا ۔

الفتاوی الکبری ( 1 / 56 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال وجواب