اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

خرید و فروخت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار

سوال

تجارت کے لیے سنت طریقہ کار کیا ہے؟ مجھے یہ جاننے کا شوق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح تجارت کیا کرتے تھے، آپ سامان تجارت کیسے پیش کرتے تھے؟ قیمت اور سامان کا تبادلہ کیسے کرتے؟ اور اگر واپس کرنی ہو تو کیسے کرتے تھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تجارتی لین دین اور خرید و فروخت کے لیے طریقہ کار کا خلاصہ درج ذیل نکات میں ممکن ہے:

1-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت سے قبل اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارت کی تھی، اسی طرح سیدہ خدیجہ کے پاس بھی کام کیا، اور اس غرض سے ملک شام کا سفر بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقامی سطح پر منعقد ہونے والے مجنہ اور عکاظ جیسے بازاروں میں بھی لین دین کرتے تھے، یہ دونوں دورِ جاہلیت کے کاروباری میلے تھے تاجر حضرات دور دور سے ان میں خرید و فروخت کے لیے شرکت کرتے تھے۔

2-نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اپنے لیے چیزیں خریدا کرتے تھے جیسے کہ سیدنا عمر کے اونٹ اور پھر سیدنا جابر رضی اللہ عنہما کے اونٹ کے واقعہ میں آتا ہے، یا پھر آپ اپنے لیے چیز خریدنے کی ذمہ داری کسی کو سونپ دیتے تھے جیسے کہ سیدنا عروہ بن ابو الجعد البارقی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں قربانی کے جانور یا مطلق بکری کی خریداری کے لیے ایک دینار دیا، تو انہوں نے ایک دینار سے دو بکریاں خریدیں اور پھر دونوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض فروخت کر دی، اب آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک دینار بھی لے آئے اور بکری بھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے خرید و فروخت میں برکت کی دعا کر دی، تو آپ رضی اللہ عنہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی انہیں نفع ہوتا تھا۔
اس روایت کو ترمذی: ( 1258 ) ، ابو داود: ( 3384 ) ، ابن ماجہ: (2402 ) نے بیان کیا ہے، نیز البانی ؒ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

3- نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم تاجر برادری کو حسن سلوک سے پیش آنے ، سچ بولنے اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔

الف: چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خریدار اور دکاندار کو جدا ہونے تک بیع جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے، اگر دونوں سچ بولیں اور ہر ایک واضح بات کرے تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر دونوں بات چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1973) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔

ب: اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عید گاہ کی جانب گئے تو لوگوں کو وہاں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے تاجروں کی جماعت!) اس پر سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنی گردنیں اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب دیکھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تاجر قیامت کے دن گناہگار حالت میں اٹھائے جائیں گے، ماسوائے اس کے جو تقوی الہی اپنائے، حسن سلوک سے پیش آئے اور سچ بولے۔)
اسے ترمذی: ( 1210 ) اور ابن ماجہ: ( 2146 ) نے روایت کیا ہے، نیز البانیؒ نے اسے " صحيح الترغيب " ( 1785 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ج: قیس بن ابو عرزہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: (تاجرو! خرید و فروخت میں لغو باتیں اور قسمیں شامل ہو جاتی ہیں، تم اپنی تجارت میں صدقہ ملایا کرو)
اس روایت کو امام ترمذی: ( 1208 ) ، ابو داود: ( 3326 ) ، نسائی: (3797 ) ، اور ابن ماجہ: ( 2145 ) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

4- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خرید و فروخت میں فراخ دلی اور آسانی پیدا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
جیسے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم فرمائے جو خریداری، فروختگی اور پھر وصولی کے وقت فراخ دلی سے کام لے۔) بخاری: (1970)

اس حدیث کی شرح میں حافظ بن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں لین دین کرتے ہوئے فراخ دلی اور حسن اخلاق سے کام لینے کی ترغیب ہے، نیز لالچ نہ کرنے اور قیمت کی وصولی میں لوگوں پر تنگی نہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہے، اسی طرح اس بات کی بھی ترغیب ہے کہ [اپنی وصولی کرتے ہوئے] لوگوں سے اتنا لے لو جو ان کی بنیادی ضرورت سے فاضل ہو۔" ختم شد
" فتح الباری" ( 4 / 307 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی سے فراخ دلی کی عملی صورتوں میں سے چند درج ذیل ہیں:

الف: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : وہ سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے۔ وہ اونٹ مجھ سے بے قابو ہو کر سب لوگوں سے آگے بڑھ جایا کرتا تھا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ اسے روکتے ڈانٹے اور پیچھے دھکیل دیتے تھے، وہ پھر آگے بڑھ جاتا تو عمر رضی اللہ عنہ اسے روکتے اور پیچھے دھکیل دیتے تھے، آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عمر سے فرمایا : (اسے مجھے بیچ دو)۔ تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یہ تو آپ ہی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمر سے پھر دوبارہ فرمایا : (اسے مجھے بیچ دو)۔ تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے لے کر فرمایا: ( عبداللہ بن عمر یہ اب تیرا ہے۔ تو جو چاہے اس کے ساتھ کر) اس حدیث کو بخاری: (2610) نے روایت کیا ہے۔

ب: سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ ایک بار اپنے تھکے ماندے اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے ، اور قریب تھا کہ اس اونٹ کو چھوڑ ہی دیتے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پیچھے پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ: (اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ) میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دوبارہ کہنے پر میں نے آپ کو فروخت کر دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کی اجازت لے لی۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی قیمت بھی پوری ادا کر دی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( تم کیا سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے اونٹ کو لینے کے لیے بہت کم قیمت لگائی ہے؟ تم اپنا اونٹ بھی لے جاؤ اور اپنی رقم بھی لے جاؤ یہ بھی تمہاری ہے۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (1991) اور مسلم : (715) نے روایت کیا ہے۔

5- آپ صلی اللہ علیہ و سلم حقوق کی ادائیگی ان کے حقداروں تک بہت اچھے انداز سے کیا کرتے تھے، اور اسی انداز سے ادائیگی کرنے کی ترغیب دلاتے تھے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمہ ایک خاص عمر کا اونٹ تھا، تو اس شخص نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے اونٹ کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے اس کا اونٹ دے دو) صحابہ کرام نے اس کے مطلوبہ عمر والے اونٹ کو تلاش کیا تو سب اس سے بڑی عمر والے ہی تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے بڑی عمر والا ہی دے دو) تو اس شخص نے کہا: آپ نے بھر پور انداز میں قرض واپس کیا ہے، اللہ تعالی بھی آپ کو بھر پور انداز میں جزا دے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اچھے انداز میں قرض واپس کرے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2182) اور مسلم : (1601) نے روایت کیا ہے۔

6- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خریداری کرتے ہوئے بھاؤ تاؤ کیا کرتے تھے، لیکن لوگوں کے مال کی حقیقی قدر سے کم قیمت نہیں لگاتے تھے، جیسے کہ ہمیں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

نیز سیدنا سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور مخرمہ عبدی ہجر علاقے سے کپڑا لے کر آئے تو ہم مکہ بھی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس چلتے ہوئے آئے اور ہم سے ایک پاجامے کے بارے میں بھاؤ تاؤ کیا تو ہم نے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فروخت کر دیا ۔
اس حدیث کو ترمذی: ( 1305 ) نے روایت کر کے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے، نیز اسے ابو داود: ( 3336 ) ، نسائی: (4592) اور ابن ماجہ: ( 2220 ) نے بھی روایت کیا ہے۔

7- آپ صلی اللہ علیہ و سلم چیزوں کو تولتے ہوئے وزن زیادہ دینے کا حکم دیتے تھے۔

جیسے کہ سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اجرت پر چیزوں کا وزن کر رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (وزن کرو اور جھکا کر دو) یہ سابقہ حدیث کا ہی بقیہ حصہ ہے۔

8- آپ صلی اللہ علیہ و سلم سودا واپس لینے کی بھی ترغیب دلایا کرتے تھے، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی مسلمان کا سودا واپس لے لے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی کوتاہیاں معاف کر دے گا۔) اس حدیث کو ابو داود: ( 3460 ) اور ابن ماجہ: ( 2199 ) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

سودا واپس لینے کے لیے حدیث مبارکہ میں {إِقَالَة} کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ معاف کر دینا، خریداری یا فروختگی مکمل ہو جانے کے بعد اسے خوشی سے کالعدم قرار دے دینا ، یہ عمل انسان کی فراخ دلی اور سخاوت کی دلیل ہوتا ہے۔

"{إِقَالَة} کی صورتیں : مشتری کسی دکاندار سے کوئی بھی چیز خریدے اور پھر اس خریداری پر پشیمان ہو چاہے اس کی وجہ سودے میں گھاٹا ہو، یا خریدار کو اس کی ضرورت نہ رہی ہو، یا خریدار کے پاس قیمت ہی موجود نہ ہو: تو خریدار دکاندار کو چیز واپس کر دے اور دکاندار واپسی قبول کر لے تو اللہ تعالی ایسے دکاندار کی قیامت کے دن مشقت اور خطا زائل کر دے گا؛ کیونکہ اس نے خریدار پر احسان کیا ہے اس لیے کہ بیع تو پکی ہو چکی تھی اور خریدار اب اس بیع کو فسخ نہیں کر سکتا تھا۔" ختم شد
ماخوذ از: عون المعبود

9- آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنگ دست کو مزید مہلت دینے کا حکم دیا کرتے تھے، بلکہ قابل وصول رقم میں سے کچھ معاف کر دینے کی بھی ترغیب دلاتے تھے۔

جیسے کہ سیدنا ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا تنگ دست کو قرض معاف کر دے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن اپنے سائے میں سایہ نصیب فرمائے گا۔) مسلم: (3006)

10- آپ صلی اللہ علیہ و سلم کاروبار کرتے ہوئے سودی لین دین، ابہام پر مبنی تجارت، بیع العینہ [قرض خواہ شخص کو قرض دینے کے لیے کوئی چیز ادھار زیادہ قیمت میں فروخت کر کے نقد کم قیمت میں خرید لینا۔] ، حرام چیزوں کی تجارت، ملاوٹ اور دھوکا دہی سے منع فرمایا کرتے تھے۔

خرید و فروخت کے متعلق احادیث بہت زیادہ اور مشہور ہیں۔

ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام تر تجارتی معاملات کی تفصیلات موجود نہیں ہیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارتی سرگرمیاں زمانہ جاہلیت میں کی تھیں، اور اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت نہیں ملی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام آپ کی وہ باتیں نقل بھی کرتے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے وہ ان شاء اللہ رہنمائی کے لیے کافی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب