سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

وہ اپنی دونوں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل نہیں کرتا

13740

تاریخ اشاعت : 29-08-2003

مشاہدات : 15981

سوال

کیا دوبیویوں سے شادی شدہ شخص پر واجب ہےکہ ہر ایک بیوی کے لیے ایام مخصوص کرے ؟
اورکیا اس کے لیے جائز ہے کہ دونوں کے مابین ایام کی تقسیم کرے ؟
میرے خاوند نے ابھی تک ہمارے ایام متعین نہیں کیے ، وہ میرے پاس اس وقت آتا ہے جب دوسرے بیوی کے گھر سے فارغ ہوتا ہے ، اورپھر میرے گھر صرف ہم بستری کے لیے آتا ہے ۔
مجھے یہ ترتیب قبول نہیں ، اور پھر ہم طلاق تک بھی جا پہنچے ہيں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اپنی ایک سے زيادہ بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، جن امور میں اسے انصاف کرنا واجب ہے اس میں تقسیم اورباری بھی شامل ہے ۔

اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک بیوی کے لیے ایک دن اوررات مقرر کرے اورپھر اس دن رات میں اس کے پاس رہنا واجب ہے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اورمسلمان علماء کرام بھی اس پر ہیں کہ آدمی کو اپنی بیویوں کے مابین دن اوررات کی تعداد کوتقسیم کرکے باری مقررکرنی چاہیۓ ، اوراس میں اسے ان سب کے مابین عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے ۔ دیکھیں کتاب الام للشافعی ( 1 / 158 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح فرمایا :

آدمی پر واجب پر اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین تقسیم کرنے میں عدل انصاف سے کام لے ، مجھے اس بارہ میں کسی بھی مخالفت کا علم نہيں ۔ ا ھـ ۔ دیکھیں کتاب الام للشافعی ( 5 / 280 ) ۔

اورامام بغوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرمرد کے پاس ایک سے زيادہ بیویاں ہوں اوروہ آزاد عورتیں ہیں توان کے درمیان تقسیم میں برابری کرنا واجب ہے چاہے وہ بیویاں مسلمان ہوں یا پھر کتابی ، اوراگروہ تقسیم میں برابری اورانصاف کوترک کرتا ہے تواس نے اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب کیا ، اوراس پر واجب ہے کہ وہ مظلوم بیوی کا حق ادا کرنے کے لیے قضاکرے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے کسی کی طرف مائل ہو توروز قیامت اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مائل ہوگی ) اس کی سند میں نظر ہے سنن ابوداود ( 2 / 242 ) سنن ترمذی ( 3 / 447 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 633 ) ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بلوغ المرام ( 3 / 310 ) میں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 7 / 80 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

اس میلان سے میلان فعل ہے ، کیونکہ جب وہ تقسیم میں برابری اورعدل کرتا ہے تو میلان قلب کا مؤاخذہ نہيں ہوگا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تم سے یہ توکبھی نہیں ہوسکے گا کہ تم اپنی تمام بیویوں ہر طرح عدل کرو ، گو تم کتنی بھی خواہش اورکوشش کرلو اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل نہ ہوجاؤ کہ دوسری کومعلق کرکے چھوڑ دو ۔

اس کا معنی یہ ہے کہ :

جوکچھ دلوں میں ہے اس کے بارہ میں توانصاف نہیں کرسکتے ، توتم بالکل ہی ایک طرف مائل نہ ہوجاؤ ، یعنی تم اپنے افعال اورخواہش کے پیچھے نہ چل نکلو ۔۔۔ ا ھـ دیکھیں شرح السنۃ للبغوی ( 9 / 150 - 151 ) ۔

اورحافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کاکہنا ہے :

بیویوں کے مابین عدل انصاف اوربرابری کرنا فرض ہے ، اوریہ عدل راتوں کی تقسیم میں سب سے زيادہ ہونا چاہیے ا ھـ ۔

دیکھیں المحلی لابن حزم ( 9 / 175 )

اورشیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

مسلمانوں کااس پر اتفاق ہے کہ خاوند پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، اورسنن اربعہ میں ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کی دو بیویاں ہوں ۔۔۔ )

اس پر واجب اورضروری ہے کہ وہ ان کے مابین تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لے تواگر ایک کے پاس ایک رات یا دو یا تین راتیں بسر کرتا ہے تو دوسری کے پاس بھی اتنی ہی راتیں بسر کریں اورکسی ایک کوبھی دوسری پرتقسیم میں فضیلت نہ دے ا ھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 32 / 269 ) ۔

علامہ عینی رحمہ اللہ تعالی مندرجہ ذیل حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہيں :

( جس کی بھی دو بیویاں ہوں ۔۔۔ )

کہا گيا ہے کہ : اس کی ایک جانب کا حقیقتا گرجانا مراد ہے ، یا پھر اس کی دلیل کا سقوط ہے کہ جس بیوی کی طرف میلان تھا دوسری کے بارہ میں اس کے پاس کوئي دلیل نہیں ہوگی ۔

اورظاہر تویہی ہوتا ہے کہ حقیقتا اس کی ایک جانب مائل ہوگی ، اس کی دلیل ابوداود کی وہ روایت ہے جس میں آیا ہے کہ " اس کی ایک جانب میں میلان ہوگا " اورسزا بھی اس عمل کی جنس میں سے ہوتی ہے ، کہ جب اس نے عدل نہ کیا یا پھر حق سے علیحدہ رہا اور ظلم وستم اورایک طرف اس کا میلان رہا توپھر اسے عذاب یہ ہو گا کہ روزقیامت جب وہ آئے گا تو لوگوں کے سامنے اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب جھکی ہوئي ہوگي ۔ ا ھـ

دیکھیں عمدۃ القاری ( 20 / 199 ) اورالبسوط ( 5 / 217 )

امام شوکانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسی سے وجوب کی دلیل لی ہے ۔ دیکھیں السیل الجرار ( 2 / 301 ) اورنیل الاوطار ( 6 / 216 )

اورابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

بیویوں کے مابین تقسیم میں برابری اورعدل وانصاف کرنے کے بارہ میں ہمیں اہل علم کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ، اوراللہ تعالی کا بھی فرمان ہے :

اوران عورتوں کے ساتھ اچھے احسن اندازمیں بود باش اختیار کرو ، اورمعروف میلان کے ساتھ نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 8 / 138 )۔

تواس بنا پر اس خاوند کے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورڈر اختیار کرتے ہوئے تقسیم میں عدل وانصاف اوربرابری سے کام لے ، اوربیوی کے ذمہ بھی یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کواس فعل میں شرعی حکم بتائے اوراس کے فعل پر جوکچھ وعید بیان ہوئي ہے اچھے اوراحسن انداز اورحکمت کے ساتھ اس کے سامنے رکھے۔

اوراسے اللہ تعالی اوریوم آخرت یاد دلائے ہوسکتا ہے وہ اپنے متعلق کچھ سوچے اوراپنے اس فعل سے باز آجائے اورتقسیم میں عدل وانصاف کرنے لگے ، یہ سب کچھ ان شاء اللہ علیحدگي اورجدائي سے بہتر ثابت ہوگا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد