جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا ایک ہی نماز استخارہ متعدد امور کے لیے پڑھی جا سکتی ہے؟

سوال

کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ ایک ہی نماز استخارہ کئی چیزوں کے لیے پڑھوں؟ یا پھر ہر کام کے لیے مجھے الگ سے دو رکعت ادا کرنا ہوں گی؟ اور اگر پہلی بات درست ہو تو پھر اس کا طریقہ کیا ہو گا؟ مثلاً: گاڑی ، مکان اور نیک بیوی تینوں چیزوں کے لیے استخارہ کرتے ہوئے دو رکعت پڑھ کر استخارہ کرنا جائز ہے یا پھر ان میں سے ہر کام کے لیے الگ نماز پڑھنا ہو گی اور ہر دو رکعت میں الگ الگ چیز اللہ تعالی سے مانگے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

استخارہ ایک دعا ہے جس میں انسان اللہ تعالی سے یہ گزارش کرتا ہے کہ اس کے لیے دو کاموں میں سے بہترین کا انتخاب فرما دے، چونکہ شریعت اسلامیہ میں دعا بہت وسیع باب ہے اس لیے انسان اپنی تمام تر حاجات اللہ تعالی سے مانگ سکتا ہے؛ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جامع ترین الفاظ میں دعا کو مستحب جانتے تھے، یعنی ایسی دعا جس کے الفاظ کم ہوں اور مفہوم وسیع ہو۔

ایسی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی کہ جس کی وجہ سے انسان دو رکعت نماز استخارہ کے بعد دعا میں ایک سے زیادہ حاجت ذکر نہ کرے؛ کیونکہ اس کے دو رکعت پڑھنے کے بعد اس کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ اس نے دو رکعت نماز پڑھی ہے اور پھر اس نے اپنی حاجت اللہ تعالی سے طلب کی ہے۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ اپنی ہر حاجت اور ضرورت کے لیے الگ نماز اور دعا کرے۔

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا ایک ہی نماز استخارہ میں ایک سے زیادہ کاموں کا ذکر کر سکتا ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ جائز ہے، نماز کو دعا کے لیے وسیلہ بناتے ہوئے اس کے بعد دعا مانگی جائے، اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے کہ نماز استخارہ میں ایک یا زیادہ حاجات کا ذکر کرے اور دعائے استخارہ کا ابتدائی حصہ پڑھنے کے بعد کہے گا: اے اللہ اگر میری فلاں ، فلاں حاجت میرے لیے بہتر ہے تو انہیں میرے لیے آسان کر دے۔۔۔ الخ"
" فتاوى في صلاة الاستخارة " (سوال نمبر: 12 )

ہم نے یہ سوال اپنے شیخ مکرم عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے بھی کہا کہ:
"ایک نماز استخارہ متعدد امور کے لیے کر سکتا ہے، چنانچہ وہ دعا میں کہے گا: یا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ فلاں ، فلاں کام میرے لیے بہتر ہے تو ۔۔۔ الخ"

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب