الحمد للہ.
سجدہ شکر کے بارے میں ہم درج ذیل نکات پر مختصر گفتگو کریں گے:
1- سجدہ شکر بندے کی طرف سے اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے سب سے اہم ترین عبادات میں سے ہے؛ کیونکہ اس میں انسان اپنے جسم کا سب سے معزز ترین حصہ یعنی : چہرہ زمین پر رکھتا ہے، اور اس کے ذریعے دل و زبان اور تمام اعضا ء سے اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
2- سجدہ شکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ثابت شدہ سنتوں میں سے ہےجسے بہت سے لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔
3- سجدہ شکر کے مشروع نہ ہونے کے بارے میں پیش کی جانے والی رائے انتہائی کمزور ہے؛ کیونکہ سجدہ شکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
4- سجدہ شکر تمام مسلمانوں کو حاصل ہونے والی نعمت ، یا ان سے زائل ہونے والی مصیبت پر کیا جا سکتا ہے، یا کسی ایک مسلمان کو نعمت ملے، یا کوئی مصیبت اس سے ٹل جائے تب بھی سجدہ شکر کیا جا سکتا ہے، چاہے اس نعمت کے حصول میں اس کا کوئی کردار ہو یا نہ ہو ۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ یہ کہو کہ: اللہ کی نعمتیں تو اپنے بندوں پر دائمی ہیں؟ (تو پھر سجدہ ِشکر کب کیا جائے)تو میں کہتا ہوں: اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو نئی وقوع پذیر ہوتی ہیں اور ان کے ملنے یا نہ ملنے دونوں کا احتمال رہتا ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسی وقت سجدہ شکر کیا جب کوئی نئی نعمت حاصل ہوئی، حالانکہ آپ پر ہر وقت اللہ تعالی کی نعمتیں جاری و ساری رہتی تھیں"
" السيل الجرار " (1/175)
5- صحیح بات یہ ہے کہ سجدہ شکر کیلئے نماز کی طرح شرائط نہیں ہیں یعنی: طہارت، ستر پوشی-عورت کا حجاب - قبلہ رخ وغیرہ کچھ نہیں ہے۔
بہت سے سلف صالحین کا یہی موقف ہے، اور کچھ مالکی فقہاء کے ساتھ ساتھ ابن جریر طبری، ابن حزم، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن قیم، شوکانی، صنعانی، وغیرہ متعدد محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے، اور ہمارے مشایخ میں سے عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، شیخ محمد بن صالح عثیمین، شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جبرین، رحمہم اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ فقہاء سجدہ شکر کیلئے نفل نماز والی شرائط لگاتے ہیں، یہ شوافع کامذہب ہے، اور ان کےساتھ اکثر حنبلی، کچھ حنفی اور مالکی فقہاء کا بھی یہی قول ہے۔
پہلے قول کے قائلین کےچند دلائل یہ ہیں:
1. سجدہ شکر کے متعلق طہارت وغیرہ کی شرط لگانے کیلئے دلیل کی ضرورت ہے، اور دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ کتاب و سنت یا اجماع و قیاس صحیح میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی وجہ سےسجدہ شکر کیلئے انہیں شرائط قرار دیا جا سکے، چنانچہ ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم امت محمدیہ پر بلا دلیل احکامات واجب کریں۔
2. ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث: (بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پر مسرت بات بتلائی جاتی، یا خوش خبری دی جاتی تو فوراً اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدہ کرتے)اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ شکر کے متعلق تمام احادیث ظاہری طور پر اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ شکر کرنے کیلئے وضو نہیں فرماتے تھے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوشخبری سنتے ہی سجدہ ریز ہو جاتے تھے، چاہے آپکا وضو ہو یا نہ ہو، اور یہی بات صحابہ کرام کے عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔
3. اگر طہارت وغیرہ نماز کی دیگر شرائط سجدہ شکر کیلئے واجب ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اپنی امت کو بتلاتے؛ کیونکہ امت کو ان کی ضرورت پڑنی تھی، اور یہ بالکل نہیں ہوسکتا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ شکر کریں، اور اپنی امت کیلئے اسے مسنون قرار دیں، لیکن طہارت وغیرہ دیگر شرائط اس کے ضروری ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیان نہ کریں، اور نہ ہی صحابہ کرام کو ان شرائط کا حکم دیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان شرائط کے بارے میں ایک حرف بھی منقول نہیں ہے۔
4. سجدہ شکر کا باعث بننے والی خبر اچانک آتی ہے، اور ایسا ممکن ہے کہ سجدہ شکر کا ارادہ رکھنے والا شخص بے وضو ہو تو سجدہ شکر وضو یا غسل کے بعد تک مؤخر کرنے سے سجدہ شکر کی حقیقی روح ہی زائل ہو جائے گی جس کی وجہ سے سجدہ شکر کرنا جائز ہوا تھا۔
5. طہارت وغیرہ جیسی شرائط نماز کیلئے لگائی جاتی ہیں ، اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آئے ، تو کھانا لایا گیا، کچھ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کی یاد دہانی کروائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں نے کوئی نماز پڑھنی ہے کہ میں وضو کروں؟!) مسلم: (374) سجدہ شکر نماز نہیں ہے؛ کیونکہ شریعت میں کسی جگہ سجدہ شکر کو "صلاۃ" نہیں کہا گیا، ویسے بھی سجدہ شکر ایک یا دو رکعت نماز بھی نہیں ہے، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے تکبیر تحریمہ ، سلام ، صف بندی اور امام وغیرہ کا تعین کیا ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا اہتمام نماز جنازہ ، سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو ، اور دیگر نمازوں میں کیا ہے، اس لئے سجدہ شکر کیلئے نماز والی شرائط نہیں ہیں۔
6. اکیلےسجدے کو ان تمام اذکار و وظائف پر قیاس کیا جائے جو نماز اور غیر نماز ہر حالت میں کیے جاتے ہیں، مثلاً: تلاوتِ قرآن جو کہ نماز میں سب سے افضل ترین جز و ہے، یا نماز کی قولی عبادات پر قیاس کیا جائے مثلاً: تسبیح[سبحان للہ کہنا]، تحمید[الحمد للہ کہنا]، تکبیر[اللہ اکبر کہنا]، تہلیل[لا الہ الا اللہ کہنا]، تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ان عبادات کو نماز سے باہر سر انجام دینے کیلئے وضو کی شرط نہیں لگائی جاتی ، اسی طرح سجدے کیلئے بھی شرط نہیں لگائی جائے گی۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"صحیح بات یہی ہے کہ سجدہ شکر، یا تلاوت کرنے والے اور ارادۃً سننے والے کیلئے سجدہ تلاوت کرنے کیلئے طہارت کی شرط نہیں لگائی جائے گی، کیونکہ یہ دونوں سجدے نماز کے حکم میں نہیں آتے"
شيخ عبد العزيز بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفیفی ، شيخ عبد الله بن قعود
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 7 / 263 )
6- سجدہ شکر کی کیفیت کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ : سجدہ شکر کی ابتدا یا آخر میں تکبیر، تشہد، سلام واجب نہیں ہیں، امام شافعی سے یہی صراحت کیساتھ ثابت ہے، امام احمد کا ایک قول اسی کے مطابق ہے، شافعی مذہب میں بھی ایک موقف یہی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ سجدہ شکر کیلئے تشہد، یا سلام جائز ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ بدعت ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر کے بارے میں کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابی سے یہ نقل نہیں کیا کہ ان میں سلام بھی ہوگا، اور نہ ہی صحابہ کرام سجدہ تلاوت یا سجدہ شکر میں سلام پھیرتے تھے، اسی لئے امام احمد بن حنبل، اور دیگر علمائے کرام سجدہ شکر اور سجدہ تلاوت کیلئے سلام کے جانتے تک نہ تھے، بلکہ امام احمد سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ: "اس کے بعد سلام نہیں پھیرا جائےگا، کیونکہ کسی حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے"جبکہ امام احمد سے دوسری روایت یہ ہے کہ: "ایک یا دونوں جانب سلام پھیرا جائے گا" لیکن یہ موقف کسی نص سے نہیں بلکہ قیاس سے ثابت ہے، اسی طرح ان میں سلام پھیرنے کے قائل دیگر فقہائے کرام کے پاس بھی کوئی نص نہیں ہے، بلکہ قیاس یا کچھ تابعین کے اقوال ہیں"
" مجموع الفتاوى " ( 21 / 277 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سجدہ تلاوت اور شکر کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں "صلاۃ" سے موسوم نہیں فرمایا، نہ ہی صف بندی کروائی، اور نہ ہی آگے امام کو مقرر کیا، جیسے نماز جنازہ میں ، یا سلام کے بعد سجدہ سہو میں اور دیگر نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسجدہ تلاوت یا شکر کیلئے سلام بھی نہیں پھیرا، اورصحیح یا ضعیف کسی بھی سند کیساتھ آپ سے یہ عمل مروی نہیں ہے، اس لئے یہ عمل بدعت ہے، اور اس کیلئے پہلی تکبیر بھی نہیں ہے"
" مجموع الفتاوى " ( 23 / 171 )
7- سجدہ شکر میں کوئی مخصوص ذکر بھی نہیں ہے، بلکہ سجدہ شکر کرنے والے کو سجدے کی حالت میں وہی کچھ کہنا چاہیے جو موقع محل کے مطابق ہو، یعنی حمد و شکر، دعا اور استغفار وغیرہ کرے۔
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ یہ کہیں کہ: سجدہ شکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگی ہوئی دعائیں منقول نہیں ہیں ، تو سجدہ شکر کرنے والا اپنے سجدے میں کیا کہے گا؟ تو میں کہتا ہوں کہ: اسے کثرت کیساتھ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے؛ کیونکہ یہ سجدہ شکرانے کا سجدہ ہے"
" السيل الجرار " ( 1 / 286 )
8- اگر نماز کی حالت میں اسے خوش خبری سنائی جائے تو سجدہ شکر مت کرے۔
کیونکہ سجدہ شکر کا باعث بننے والی خبر نماز کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اسکا نماز سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، چنانچہ اگر اس نے جان بوجھ کر سجدہ شکر نماز میں کیا تو اسکی نماز باطل ہوجائےگی، بالکل اسی طرح جیسے نماز میں جان بوجھ کر ایک سجدہ زائد کرنے سے ہو جاتی ہے، یا اپنی موجودہ نماز میں گذشتہ کی نماز کا سجدہ سہو کرنے، یا اپنی موجودہ نماز میں کسی اور نماز کی نیت کرنے سے باطل ہو جاتی ہے، یہی موقف شافعی مذہب ہے، اور اکثر حنبلی فقہاء بھی اسی کے قائل ہیں۔
کچھ حنبلی فقہاء کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں سجدہ شکر سجدہ تلاوت پر قیاس کرتے ہوئے جائز ہے ۔
ان حنبلی فقہاء کو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ : انکا ذکر کردہ قیاس صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ : سجدہ تلاوت کا سبب نماز کے افعال میں سے ایک [قراءت]فعل ہوتا ہے، جبکہ سجدہ شکر کا سبب خارج از نماز ہوتا ہے، لہذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"جس شخص نے نماز میں سجدہ شکر کا حکم جانتے ہوئے بھی عمداً سجدہ شکر کیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔۔۔ [ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:] مؤلف کی یہ بات کہ "سجدہ شکر سے نماز باطل ہو جائے گی"درست ہے، کیونکہ سجدہ شکر کا نماز سے کوئی تعلق نہیں، لیکن سجدہ تلاوت کا نماز سے مکمل تعلق ہوتا ہے؛ کیونکہ سجدہ تلاوت نماز میں کی جانے والی قراءت کی وجہ سے کیا جاتا ہے"انتہی
" الشرح الممتع على زاد المستقنع " ( 4 / 107 ، 108 )
9- سوار آدمی سواری پر بیٹھ کر بھی سجدہ شکر کر سکتا ہے، جس کیلئے وہ بقدر استطاعت اشارہ کریگا۔
10- اگر وقت پر سجدہ شکر نہیں کر پایا تو بعد میں اس کی قضا دے سکتا ہے۔
"اگر انسان کسی پر مسرت چیز کی خبر ، یا نعمت ملنے پر بغیر کسی عذر کے سجدہ شکر نہ کرے، تو کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ اس سجدہ شکر کی قضا نہیں دے سکتا؛ کیونکہ اس نے بلا وجہ سجدے کو مؤخر کیا"
مزید کیلئے دیکھیں: " حاشیہ قليوبی " ( 1 / 209 )
ماخوذ از: ترتیب و تلخیص مع فوائد و اضافہ از مقالہ: " سجود الشكر وأحكامه في الفقه الإسلامي " از: ڈاکٹر : عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین حفظہ اللہ، جو کہ " مجلة البحوث الإسلامية " ( 36 / 267 – 309 ) میں نشر ہوچکی ہے۔
واللہ اعلم.